انڈیا کے شہر حیدرآباد کے آصف جاہی خاندان نے 156 سال قبل مکہ اور مدینہ میں رباطیں خریدی تھیں۔ انہوں نے یہ رباطیں اپنی والدہ دلاور النسا بیگم اور اہلیہ حسینی بیگم صاحبہ کے نام پر خریدیں۔
ان رباطوں کا بنیادی مقصد عازمین حج کو سہولیات فراہم کرنا تھا، جن سے حیدر آباد کے عازمین حج آج بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
یہ تاریخی رباطیں نہ صرف ریاست دکن کے لوگوں کے لیے ایک اہم ورثہ ہیں بلکہ مذہبی اور ثقافتی رشتوں کو بھی مضبوط کرتی ہیں۔ یہ زائرین کے لیے اقتصادی اور جذباتی مدد کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
حسین محمد مدرل شریف رباط کے منتظم ہیں۔ وہ گذشتہ 28 برسوں سے رباط کے لیے منتخب ہوئے عازمین حج کی خدمت کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پانچویں نظام نواب افضل دولہ بہادر نے حج اور عمرہ زائرین کی سہولت کے لیے کئی عمارتیں خریدی تھیں، جنہیں رباط کا نام دیا گیا۔
ان رباطوں میں ممتاز رباط حسین بی، افضل الدولہ اور دلاور النسا بیگم شامل ہیں۔ 1967 میں جب مکرم جاہ نے تخت سنبھالا اور جانشین بنے تو باضابطہ طور پر یہ رباطیں وقف کی گئی۔ تب سے عازمین حج کے لیے انتظام جاری ہے۔
حسین محمد بتاتے ہیں کہ نظام نے یہ شرط رکھی تھی کہ رباطوں کا فائدہ صرف ریاست دکن کے لوگوں کو ملے گا۔ آزادی کے بعد حیدرآباد دکن کو ہندوستان میں ضم کر دیا گیا۔
اس وقت ریاست دکن میں موجودہ مہاراشٹر، کرناٹک اور تلنگانہ شامل تھے۔ نظام کے زمانے میں ریاست دکن ایک اہم ثقافتی اور اقتصادی مرکز تھا۔
حسین محمد نے مزید بتایا وہ فی الحال مکہ کی رباطوں میں سہولیات فراہم کر رہے ہیں کیونکہ مدینہ کی رباطیں فعال نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رباطیں خانہ کعبہ سے صرف 11 منٹ کی مسافت پر ہیں، جہاں سے منیٰ صرف پانچ منٹ کی دوری پر ہے۔
’یہ عازمین کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ اس سے وہ اپنے قیام کے اخراجات میں 50 سے 60 ہزار انڈین روپے تک کی بچت کر سکتے ہیں۔‘
رباط کے انتظام کے بارے میں انہوں نے وضاحت کی کہ رباط میں مقیم عازمین حج کو نہ صرف رہائش کی سہولت ملتی ہے بلکہ ان کے لیے گیس سیلنڈر فراہم کیے گئے ہیں تاکہ وہ کھانا خود بنا کر کھا سکیں۔
’پہلے ہم خود کھانا پکا کر حاجیوں کو دیتے تھے لیکن اب کچن کی سہولیات میسر ہے۔ اس سے عازمین حج اپنی پسند کے مطابق کھانا تیار کر سکتے ہیں اور انہیں گھر جیسا ماحول ملتا ہے۔ یہ انتظام حجاج کے تجربے کو مزید بہتر بناتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حسین محمد نے بتایا کہ ان کو حاجیوں سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ ایک خاص رشتہ قائم ہوتا ہے۔
ان کے لیے ایک مہینہ بہت دلچسپ وقت ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ کا تعلق حیدرآباد جبکہ والد کا سعودی عرب سے ہے۔ والدہ اس سفر میں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔
حسین محمد کہتے ہیں کہ یہ سب ان کی والدہ کی وجہ سے ممکن ہو سکا کہ وہ پچھلے 28 سالوں سے حاجیوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
’سعودی عرب کی حکومت نے ہمیشہ رباط کی حمایت کی ہے۔ شاہ سلمان کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اس میں تعاون کرتے ہیں۔‘
ممتاز مصنف علامہ اعجاز فاروق کے مطابق بیسویں صدی کی ابتدا میں حیدرآباد نے نہ صرف سعودی عرب کو مالی امداد فراہم کی بلکہ یہاں سے اناج بھی بھیجا۔ نظاموں کی اپنی ایئر لائنز ہوا کرتی تھی۔
1946 میں نظاموں نے جدہ کے لیے حج پروازیں شروع کیں۔ جب دکن ایئر ویز کے ہوائی جہاز حیدرآباد کے بیگمپیٹ ہوائی اڈے سے جدہ کے لیے روانہ ہوئے تو شہر کے ہزاروں لوگ اس تاریخی لمحے کو دیکھنے کے لیے ہوائی اڈے پر جمع ہوئے۔
نظام خاندان نے حیدرآباد میں کئی ہسپتال، کالجز اور ٹرسٹس قائم کیے۔
1856 میں عثمانیہ یونیورسٹی بنوائی۔ اس کے علاوہ کئی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کیں جو آج بھی شان و شوکت اور عظمت کی علامتیں ہیں۔