برطانیہ کے امیر ترین خاندان نے کتے پر ملازم سے ’زیادہ خرچہ‘ کیا، سوئس عدالت میں الزام

سوئس عدالت کو بتایا گیا کہ ارب پتی ہندوجا خاندان نے اپنے پالتو کتے پر اپنے ایک نوکر کے مقابلے میں زیادہ خرچ کیا۔ اس ملازم نے ہفتے کے ساتوں دن 18 گھنٹے کام کرنے پر محض 6.20 پاؤنڈ کمائے۔

15 جنوری 2024 کی اس تصویر میں ارب پتی خاندان کے ممبران نمرتا ہندوجا اور اجے ہندوجا جنیوا میں عدالت میں آتے ہوئے (اے ایف پی/ گیبرئیل مونے)

‌سوئٹزرلینڈ کے لیک جنیوا ولا میں مقیم برطانیہ کے امیر ترین خاندان پر اپنے گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

وکیل استغاثہ یوویز برٹوسا نے سوئس عدالت کو بتایا کہ ارب پتی ہندوجا خاندان نے اپنے پالتو کتے پر اپنے ایک نوکر کے مقابلے میں زیادہ خرچ کیا۔ اس ملازم نے  ہفتے کے ساتوں دن 18 گھنٹے کام کرنے پر محض 6.20 پاؤنڈ کمائے۔

انہوں نے ’پیٹس‘ کے عنوان سے ایک بجٹ دستاویز کا حوالہ دیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ اس خاندان نے اپنے پالتو کتے کے لیے سالانہ 8,584 سوئس فرانک مختص کیے ہیں۔

یوویز برٹوسا نے ملازمین کے معاہدوں میں کام کے مخصوص اوقات یا چھٹیوں کی عدم موجودگی کو بھی نوٹ کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ ملازمین بنیادی طور پر ہر وقت خاندان کی خدمت پر مامور تھے جب کہ ان کے ضبط شدہ پاسپورٹ سے ان کی آزادی محدود ہو گئی۔

ان الزامات کے دفاع میں ہندوجا خاندان کے وکلا نے کہا کہ ملازمین کے ساتھ باعزت سلوک روا رکھا گیا اور انہیں رہائش فراہم کی گئی۔

خاندان کے رکن اجے ہندوجا کے وکیل یال حیات نے کہا: ’نقد میں ادا کی گئی یہ تنخواہ صرف اس لیے کم ہے کیونکہ اس میں کھانے اور رہائش کے اخراجات شامل نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ دن میں 18 گھنٹے کام بھی ایک مبالغہ آرائی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاندان کے وکلا نے یہ دلیل بھی دی کہ کچھ ملازمین رضاکارانہ طور پر متعدد بار جنیوا میں کام پر واپس آئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں ان کے حالات کے مقابلے میں یہاں ان کے حالات اطمینان بخش ہیں۔

استغاثہ نے ہندوجا اور ان کی اہلیہ نمرتا کے لیے قید کی سزا کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی خاندان کو عدالتی اخراجات کی مد میں 10 لاکھ سوئس فرانک ادا کرنے اور عملے کے لیے معاوضے کی مد میں 35 لاکھ فرانکس دینے کے حکم کی بھی استدعا کی۔

وکیل دفاع نے کہا کہ یوویز برٹوسا کے الزامات گمراہ کن ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ خاندان کی خدمت کے طریقوں کو بہتر بنایا گیا ہے اور اب وہ مقامی ضوابط کی پابندی کر رہے ہیں۔

مقدمے کی سماعت کے دوران ہندوجا نے گواہی دی کہ وہ ملازمین کے کام کے حالات کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ نہیں تھے کیونکہ ان کی بھرتی کا انتظام انڈیا میں ہندوجا گروپ کرتا تھا۔

لیکن اس کے بعد انہوں نے غیر رسمی ادائیگی کے عمل کو روک دیا تھا اور اب تمام ملازمتوں کی بھرتیاں تیسرے فریق کے ذریعے مقامی طور پر کی جاتی ہیں۔

حیات نے عدالت کو بتایا کہ ’آپ کو ایک بھی ملازم نہیں ملے گا جو کہے کہ انہیں اجے ہندوجا نے ملازمت پر رکھا تھا۔ جب کہ وہ کہیں اور تھے اس لیے وہ اس حقیقت سے ناواقف تھے۔‘

وکیل استغاثہ نے سخت سزاؤں کا مطالبہ کیا، جس میں خاندان کے بڑے افراد کے لیے پانچ سال سے زیادہ قید اور بھاری مالی جرمانے شامل ہیں۔

انہوں نے خاندان کے سینیئر ممبران پرکاش اور کمل ہندوجا کی مقدمے کی سماعت سے غیر حاضری پر بھی تنقید کی اور یہ تجویز کیا کہ یہ قانونی عمل کی توہین کے مترادف ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ