’آمر آئے تو ساتھ مل جاتے ہیں، جمہوریت آئے تو چھریاں نکال لیتے ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ سماعت کر رہا ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے آج بھی سماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا ’اگر سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے لیکن ایک بھی سیٹ نہ جیتے تو کیا سیاسی جماعت رہے گی؟‘

وکیل نے جواب دیا کہ ’کسی بھی سیاسی جماعت کو کم از کم ایک سیٹ جیتنا لازمی ہے۔ سیاسی جماعت نے ایک بھی سیٹ نہ جیتی ہو اور 200 آزاد امیدوار ساتھ ہوں تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔‘

جسٹس مندوخیل نے کہا یعنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔

وکیل نے جواب دیا ’اگر بینچ میرے منہ سے کچھ نکلوانا چاہتی ہے تو میں نہیں کہوں گا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر کنفیوز کیا جا رہا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’بلے کے نشان پر نہیں سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنے میں فرق ہے۔

’ایک طرف نظرثانی کر رہے ہیں اور دوسری طرف تبصرہ کر رہے ہیں۔ کسی اور بینچ کے فیصلے پر ریمارکس دینا درست نہیں آگے چلیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کوئی بھی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا رہا۔ 

بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ’آج کیس ختم نہیں ہو رہا۔ پرسوں تک کیس ملتوی کر دیتے ہیں مگر وکلا مختصر رہیں۔

 کیس کی سماعت 27 جون دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

سماعت کے دوران ایک دوسرے موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں۔

انہوں نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں۔ اب جب نہیں ہے تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہو گئیں؟‘ 

جسٹس منیب اختر نے کہا پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آزاد امیدوار نے ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے جس نے کم از کم ایک سیٹ جیتی ہو۔ 

بعد ازاں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا: ’کیا قانون آپ کو اختیار دیتا ہے کہ آپ طے کریں کون آزاد امیدوار ہے؟ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟‘ 

مخصوص نشستوں کا طریقہ کار

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فارم 66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی ہے، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بالکل ایک طرح کا ہے۔

’کاغذات نامزدگی پہلی سٹیج ہوتی ہے، خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشست وزیراعظم کے لیے بھی امیدوار ہو سکتی ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا انتحابی نشان واپس ہونے سے ایک جماعت کو انتخابات لڑنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’آپ کے مطابق بلے کے نشان کے فیصلے سے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کیا؟‘

وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا ’ایسا نہیں ہے معذرت اگر ایسا سمجھا گیا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’فیصلے کو کم از کم پڑھ لیں۔ فیصلہ نہیں بلکہ یہ قانون ہے۔ آج انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تو کل ہو سکتے ہیں۔ میں حیران تھا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروا رہی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سوالات نوٹ کر کے آخر میں جواب دیں۔‘

اس سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سماعت کر رہا ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی طبعیت ناساز ہونے کی وجہ سے آج بھی سماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ 

منگل کو سماعت کے آغاز کے بعد سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’کاغذاتِ نامزدگی میں چیئرمین کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے، سنی اتحاد کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مخصوص نشستیں ملنے پر کنول شوزب ہماری امیدوار ہوں گی۔ عدالت نے صاحبزادہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کا پوچھا تھا، ان میں حامد رضا نے وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ہی دکھائی تھی۔ غیر مسلم رکن نہ رکھنے والی شق جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے منشور میں بھی ہے، اس کے باوجود اسے مخصوص نشستیں ملی ہیں۔‘

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں سے متعلق فہرست جمع نہیں کروائی۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی عدالت میں پیش کر دیے، جس کے بعد مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل نے کہا کہ کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا ہے اور تاریخ میں توسیع بھی کی گئی۔ 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن تصدیق کرے گا کہ سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔

وکیل مخدوم علی خان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا: ’حیران کن بات ہے کہ سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائی کورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔‘

 جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کے سامنے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کیس ہی نہیں۔ ’پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ کیوں نہیں آئی؟‘

اس موقعے پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: ’الیکشن کمیشن پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد کیسے قرار دے سکتا ہے؟‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا: ’وہ اپنے موقف پر قائم ہیں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کر کے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔‘

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔‘ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا: ’کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟‘ 

اس موقعے پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ’آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولا سمجھائیں، فارمولا کیا ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے: ’جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں۔ وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آ جاتے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، میں نے مشرف دور میں وکالت چھوڑ دی تھی۔ تاریخ کی بات کر رہے ہیں تو مکمل تاریخ کی بات کریں۔‘

اب تک کیا ہوا؟

سپریم کورٹ نے رواں برس چھ مئی کو ہونے والی سماعت میں 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا چار مارچ کا فیصلہ بھی معطل کردیا تھا، جس میں سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کردیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق چھ، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔‘

مزید کہا گیا تھا: ’سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کروائی، لہذا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔‘

اس وقت ایوان میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں، جن میں سے چھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ حکمران اتحاد کی ان جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہیں۔

آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہو گئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی تھی جو کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے بعد دوبارہ 208 ہو گئی ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے، جن میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان