بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے دو اہم کمانڈر گرفتار: وزیر داخلہ

کالعدم ٹی ٹی پی کے گرفتار کمانڈر نصر اللہ نے اعترافی ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ انڈین ایجنسی ’را‘ نے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کا الحاق کروایا جبکہ ٹی ٹی پی کو موجودہ افغان حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو 26 جون 2024 کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے (سکرین گریب/ پی ٹی وی)

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بدھ کو کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دو اہم کمانڈروں نصر اللہ عرف مولوی منصور اور ادریس عرف ارشاد کو گرفتار  کر کے بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے اڈے بنانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔

کوئٹہ میں صوبائی حکام کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے بتایا کہ گرفتار کمانڈر نصر اللہ ٹی ٹی پی کی دفاعی شوریٰ کا رکن ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران گرفتار کمانڈر نصر اللہ کا ریکارڈ شدہ بیان بھی سنوایا گیا، جس میں وہ کہتے نظر آئے کہ ان کا تعلق جنوبی وزیرستان کے ایک گاؤں سے ہے اور عمر 44 سال ہے۔

محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے کمانڈر نصر اللہ نے بتایا کہ ’ٹی ٹی پی میں آنے سے پہلے میں 2005 میں بیت اللہ محسود کے پلیٹ فارم سے تخریبی کارروائیوں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ جب 2007 میں ٹی ٹی پی وجود میں آئی تو میں اس میں شامل ہوگیا۔ اس طرح میں گذشتہ 16 سال سے تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ رہا ہوں، جس کے دوران میں نے بےشمار دہشت گرد کارروائیوں میں براہ راست حصہ لیا اور (آپریشن) ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہوگیا اور وہاں پر پکتیکا میں رہنے لگا۔

’16 سال تک میں نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے خلاف عملی طور پر دہشت گردی کی بےشمار کارروائیوں میں حصہ لیا۔ میں نے پاکستانی فوج کی مختلف پوسٹوں پر جنوبی و شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان افغان سرحد پر کئی حملوں میں حصہ لیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مختلف حملوں میں حصہ لینے کا ذکر کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کمانڈر نے مزید کہا کہ ’ان حملوں میں قانون نافذ کرنے والے اور عوام کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ تنظیم میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں اور 2023 سے اب تک شوریٰ کے دفاعی کمیشن میں امیر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری ذمہ داری ٹی ٹی پی کے تمام مالی امور کو مرکزی طور پر کنٹرول کرنا تھی اور میں پاکستان میں بھیجی جانے والی ترسیلات کے لیے ہتھیار اور گولہ بارود کے علاوہ طلب و رسد کو بھی سنبھالتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ جنوری میں انہیں افغانستان بلوایا گیا اور کہا گیا کہ ’ایک خاص مقصد کے لیے پاکستان کے صوبہ بلوچستان جانا ہے‘ اور اس میں انہیں سرحدی گاؤں سپن بولدک سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے جنوب سے سرحد پار کرنا تھی۔

گرفتار ٹی ٹی پی کمانڈر نے اعترافی ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ ’یہ منصوبہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) مجید بریگیڈ کے کمانڈر بشیر کے ساتھ مل کر بنایا گیا تھا اور اس میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا، جو چاہتی تھی کہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کا الحاق کروایا جائے اور ٹی ٹی پی کے لیے بلوچستان کے علاقے خضدار میں مراکز قائم کیے جائیں۔

’الحاق کا مقصد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنایا اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا تھا، جن سے صوبے میں غیریقینی کی صورت حال پیدا کی جاسکے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی قیادت کے مطابق بلوچستان میں قدم جمانے کے پیچھے ان کے اور ان کے دوستوں یعنی ’را‘ کے تین مقاصد ہیں۔

1۔ سی پیک کو سبوتاژ کرنا، جس میں چینی باشندوں کو ہدف بنانا شامل ہے۔

2۔ اغو ابرائے تاوان کی کارروائیاں کرکے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ہوا دینا تاکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بدنام کیا جا سکے۔

3۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے عوام میں بے چینی پیدا کرنا۔

کمانڈر نصر اللہ نے اپنے ویڈیو بیان میں یہ بھی بتایا کہ بلوچستان اور بی ایل اے کے بارے میں سن کر جب انہوں نے شریعت کے بارے میں بات کی تو قیادت نے سختی سے حکم دیا کہ بی ایل اے والوں کے ساتھ دینی معاملات پر کوئی بحث نہیں کرنی۔

انہوں نے اپنی گرفتاری کے حوالے سے بتایا: ’بی ایل اے کے ایک رہبر نے ہمیں رات کے اندھیرے میں مشکل علاقے سے سرحد پار کروائی اور اسی تنظیم کے ایک اور رہبر کے حوالے کر دیا۔ سفر کے دوران وہ رہبر بار بار ادھر ادھر دیکھتا اور فون پر بات کرتا تھا، مجھے اور ساتھیوں کو اس پر شک ہوا۔

’رہبر کے ساتھ ہم نے تھوڑا ہی سفر قلات کی طرف طے کیا تھا کہ فوج کی ایک پیٹرولنگ پارٹی کی نظر میں آگئے۔ ہمارے خدشات کے عین مطابق بی ایل اے کا رہبر ہمیں وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلا، ہم نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن جلد ہی ہمیں گرفتار کرلیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بی ایل اے نے منصوبہ بندی کے تحت ہمیں دھوکہ دیا، تفتیش کے دوران ہم نے جو بتایا، وہ سچ بتایا۔‘

بقول کمانڈر نصر اللہ: ’ٹی ٹی پی کے سارے معاملات خصوصاً مالی معاملات کے پیچھے ہندوستان (انڈیا) ہے۔ نور محسود انڈین خفیہ ادارے را کے لوگوں سے انڈین سفارت خانے جا کر ملتے ہیں، جس کی مکمل پشت پناہی موجودہ افغان حکومت کر رہی ہے۔

’موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو مالی مدد، تربیت اور افرادی قوت بھی فراہم کرتی ہے۔‘

انہوں نے ٹی ٹی پی سربراہ کے حوالے سے کہا کہ ’وہ دوسروں کے بچوں سے تو خودکش حملے کروا کر انہیں جنت میں پہنچانے کا فتویٰ دیتے ہیں، تو یہی راستہ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو جنت میں بھیجنے کے لیے کیوں نہیں استعمال کرتے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی میں دوسرے قبائل کے بچوں کو پاکستان دشمن مقاصد میں مروا کر استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ تنظیم میں اندرونی طور پر بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

بقول کمانڈر نصر اللہ ٹی ٹی پی کے تمام کمانڈر افغانستان میں کھلے عام گھوم رہے ہیں اور انہیں افغان حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے گرفتار کمانڈر کے ان الزامات سے متعلق نہ تو انڈیا اور نہ ہی افغانستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان