اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے عدت میں نکاح سے متعلق کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کرتے ہوئے ان کی سزائیں برقرار رکھی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے منگل (25 جون) کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔
تحریک انصاف کے وکلا کا کہنا ہے کہ جج نے 25 سیکنڈ کے مختصر وقت میں دونوں اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا اور اپنے چیمبر کی طرف روانہ ہو گئے۔
تفصیلی حکم ابھی جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم تحریک انصاف کا الزام ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح سے متعلق کیس میں اس سال 3 فروری کو عام انتخابات سے چار روز قبل سات، سات برس قید کی سزا سنائی تھی جسے انہوں نے چیلنج کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ضمانت پر رہائی کا حق ملزم کا ہوتا ہے مجرم کا نہیں اس لیے دونوں کی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور بشری بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں مسترد ہونے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل سیشنز جج افضل مجوکا نے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ دونوں ملزمان کے پاس سزا معطلی کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ’بشری بی بی کا خاتون ہونا سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا جواز نہیں بنتا۔ عمران خان اور بشری بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔‘
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سزا معطلی یا ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران مقدمے کے میرٹس پر بات نہیں کی جا سکتی۔ ’دونوں ملزمان کو دی گئی سزا نہ تو قلیل مدتی ہے، نہ ہی وہ سزا کا زیادہ حصہ بھگت چکے ہیں۔‘
فیصلہ میں عدالت کا پاکستان کریمنل لا جرنل میں موجود محمد ریاض بنام سرکار کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
’محمد ریاض بنام سرکار کیس کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضمانت انڈر ٹرائل ملزم کا حق ہے، سزا یافتہ کا نہیں۔‘
عدت میں نکاح کیس: اب تک کیا ہوا؟
گذشتہ برس 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف عدت کے نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ’دوران عدت نکاح کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے۔‘
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا شکایت کنندہ ہیں جبکہ عون چوہدری اور مفتی سعید اس کیس میں گواہ ہیں۔
گذشتہ برس 11 دسمبر کو عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اڈیالہ جیل میں سماعت کے بعد سینیئر سول جج قدرت اللہ نے رواں برس 16 جنوری کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ناجائز تعلقات کے الزامات کا کیس ختم کرتے ہوئے صرف عدت میں نکاح کی حد تک فرد جرم عائد کی تھی۔
بعد ازاں ملزمان کی جانب سے معاملہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت کے دوران نکاح کیس میں گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے روکتے ہوئے خاور مانیکا کو 25 جنوری کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔
لیکن 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں نمٹا دیں اور قرار دیا کہ ’فردِ جرم عائد ہو چکی ہے، ہائی کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی۔‘
بعدازاں رواں برس تین فروری کو سول جج قدرت اللہ نے اڈیالہ جیل میں عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا کا حکم سنایا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا، جس میں عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی۔
سماعت کے دوران عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت میں 13 صفحات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا تھا۔ بشریٰ بی بی نے اپنے بیان میں 14 نومبر 2017 کے طلاق نامے کو ’من گھڑت‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ (سابق شوہر) خاور مانیکا نے انہیں اپریل 2017 میں زبانی طلاق دی اور اپریل سے اگست 2017 تک انہوں نے اپنی عدت کا دورانیہ گزارا۔
بقول بشریٰ بی بی: ’میں اگست 2017 میں لاہور میں اپنی والدہ کے گھر منتقل ہوئی اور یکم جنوری 2018 کو عمران خان سے ایک ہی نکاح ہوا۔‘
بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ مریم ریاض وٹو نے بھی رواں برس فروری میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی بہن پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بشریٰ بی بی اسلامی قوانین کے تحت عدت پوری کر کے اپنے گھر گئیں اور پھر ان کا نکاح ہوا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ بشریٰ بی بی کی خاور مانیکا سے طلاق کی وجہ سابق شوہر کا توہین آمیز رویہ تھا۔
بقول مریم وٹو: ’جب بشریٰ بی بی کی طلاق ہو گئی تو خان صاحب نے انہیں باقاعدہ شادی کا پیغام دیا اور میری والدہ اور بھائی کو فون کیا۔ بشریٰ بی بی نے فوراً رشتہ منظور نہیں کیا بلکہ کافی وقت کے بعد ہاں کی اور اس کے بعد ان کا نکاح ہوا۔‘
دوسری جانب بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا نے مریم وٹو کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ ان کا ’کبھی کبھار جھگڑا ہوجاتا تھا لیکن وہ ان (بشریٰ بی بی) کی حرکات سے چڑ گئے تھے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ 28 سال بشریٰ بی بی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک رہے اور کوئی مسائل نہیں تھے، لیکن بقول ان کے عمران خان کے ان کی زندگی میں آنے کے بعد سے معاملات خراب ہوئے۔
خاور مانیکا مختلف ٹی وی انٹرویوز اور عدت کیس کی عدالتی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف ان کے گھر آتے تھے جبکہ انہوں نے عمران خان کو اپنے گھر سے باہر نکالنے کا دعویٰ بھی کیا تھا اور بقول ان کے اس صورت حال سے تنگ آ کر انہوں نے 14 نومبر 2017 کو اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی تھی۔