دوران عدت نکاح: عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سات، سات سال قید

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو دوران عدت نکاح کے کیس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496 کے تحت سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان 17 جولائی 2023 کو بشریٰ بی بی کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس میں مختلف مقدمات میں ضمانت کے لیے ضمانتی بانڈز پر دستخط کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی و سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عدت کے دوران نکاح کے کیس میں سات، سات سال قید کی سزا سنا دی ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ہفتہ کو دوران عدت نکاح کے کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا ہے۔

عدالت میں سنائے جانے والے محفوظ فیصلے کے مطابق دوران عدت نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496 کے تحت سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

عدت میں نکاح کیس میں ایک شکایت کنندہ اور تین گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور ان پر جرح کی گئی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد دو روز میں طویل سماعتوں میں بیانات اور جرح کا عمل مکمل کیا گیا۔

عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مزید کہا کہ ’39 روز میں عدت پوری ہونے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ججمنٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ سپریم کورٹ فیصلے کا اطلاق اس کیس میں نہیں ہوتا۔‘

بیرسٹر گوہر نے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’جج نے زبانی فیصلہ سنایا ہے ابھی تحریری فیصلہ موجود نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

اس حوالے سے سابق نائب چیئرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طلاق کے بعد عدت پوری کیے بغیر نکاح کا کیس پہلی بار سامنے آیا ہے۔ اس طرح کا کیس کبھی نہیں سنا نہ ہی کسی کو اس طرح سزا ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ شرعی طور پر دیکھا جائے تو شرعیت کے خلاف فعل پر سزا ہو سکتی ہے مگر قانونی طور پر یہ براہ راست قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہم کیونکہ مسلمان ہیں اس لیے شرعی شرائط پر عمل کرنا فرض ہے۔ اگر سابق خاوند عدت پوری کیے بغیر نکاح کو عدالت میں لاتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی شرعی خلاف ورزی ہوئی تو سزا تو لازمی ہوتی ہے۔‘

اس سے قبل جمعے کی شب اڈیالہ جیل میں 13 گھنٹے سے زائد تک جاری رہنے والی سماعت کے اختتام کے بعد سول جج قدرت اللہ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سماعت کے دوران عمران خان اور بشریٰ بی بی نے کمرہ عدالت میں دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کروایا۔ انہیں 13 صفحات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور عثمان ریاض گل ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور گواہان کے بیانات پر جرح کی۔ 

بشریٰ بی بی نے اپنے بیان میں 14 نومبر 2017 کا طلاق نامہ ’من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ’(سابق شوہر) خاور مانیکا نے مجھے زبانی طلاق ثلاثہ سال 2017 کے اپریل کے مہینے میں دی۔ اپریل سے اگست 2017 تک میں نے اپنی عدت کا دورانیہ گزارا۔‘

انہوں نے کہا: ’میں اگست 2017 میں لاہور میں اپنی والدہ کے گھر منتقل ہوئی اور یکم جنوری 2018 کو عمران خان سے ایک ہی نکاح ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدت میں نکاح کیس میں ایک شکایت کنندہ اور تین گواہان کے بیانات ہوئے اور ان پر جرح کی گئی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد دو روز میں طویل سماعتوں میں بیانات اور جرح کا عمل مکمل کیا گیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی پر رواں برس 16 جنوری کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

اڈیالہ جیل میں سینیئر سول جج قدرت اللہ نے اس کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ’ناجائز تعلقات‘ کے الزامات کا کیس ختم کرتے ہوئے صرف عدت میں نکاح کی حد تک فردِ جرم عائد کی تھی۔

بعد ازاں ملزمان نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جہاں سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے عدت کے دوران نکاح کیس میں گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے روکتے ہوئے بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو 25 جنوری کے لیے نوٹس جاری کر دیا تھا۔

تاہم 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں نمٹا دیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ ’فردِ جرم عائد ہو چکی ہے، ہائی کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی۔‘

اس کیس میں بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا شکایت کنندہ ہیں جبکہ عون چوہدری اور مفتی سعید اس کیس میں گواہ ہیں۔

کیس کب دائر کیا گیا؟

گذشتہ برس 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دورانِ عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا۔

یہ درخواست سیکشن 494/34، B-496 اور دیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی تھیں۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ’دورانِ عدت نکاح کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے۔‘

یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔

سول عدالت میں جمع کروائے گئے خاور مانیکا کے تحریری بیان کے مطابق بشریٰ بی بی کی بہن مریم  نے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بشریٰ کا عمران خان سے تعارف کروایا تھا۔

بیان میں خاور مانیکا نے دعویٰ کیا کہ عمران خان ’پیری مریدی‘ کی غرض سے ان کے گھر داخل ہوئے اور ان کی غیر موجودگی میں گھر آتے رہے۔

ان کے مطابق اس وجہ سے ایک مرتبہ وہ عمران خان کو گھر سے بھی نکال چکے ہیں۔ انہوں نے مزید دعوٰی کیا کہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور سابق مشیر زلفی بخاری بھی عمران خان کے ساتھ ان کے گھر آتے رہے۔

انہوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا ٹیلی فون پر رابطہ رہتا تھا اور فون کی سم بشریٰ بی بی کی دوست فرح گوگی نے فراہم کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال سے تنگ آ کر انہوں نے 14 نومبر، 2017 کو اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی تھی۔

خاور مانیکا نے بیان میں کہا کہ وہ پہلے اس معاملے پر نہیں بولے کہ یہ گھر کی بات ہے لیکن باتیں منظر عام پر آنے کے بعد وہ اسے عدالت میں لے جا رہے ہیں۔

گذشتہ برس 11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابلِ سماعت قرار دیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان