اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں جمعرات کو سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے دوران عدت نکاح کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔
کچحری پہنچی تو اطراف میں مناظر کافی جانے پہچانے نظر آئے۔ 18 مارچ، 2023 کے بعد آج اتنی بڑی تعداد میں پارٹی کارکن عمران خان کا کوئی کیس سننے آئے ہوئے تھے۔
اُس وقت اور آج میں فرق صرف یہ تھا کہ اُس وقت عمران خان اور ان کی اہلیہ نے جوڈیشل کمپلیکس آنا تھا جبکہ آج وہ جیل میں ہیں اور کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنایا جانا تھا۔
ضلعی عدالت میں آج صرف وکلا، پی ٹی آئی رہنما اور صحافیوں کا داخلہ ہو سکتا تھا جبکہ پارٹی کارکنان کو عدالت کے صدر دروازے پر روکا جا رہا تھا۔
تاہم چند کارکنان پولیس اہلکاروں سے بظاہر جان پہچان کی بنا پر کچحری کے احاطے میں داخل ہو گئے۔
میں کمرہ عدالت پہنچی تو وہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو موجود پایا۔ ان سے پوچھا کیا امید کر رہے ہیں؟ تو دو کارکنان بیک وقت بولے ’امید تو اچھے کی نہیں۔‘
یہ سن کر باقی کارکنان مسکرانے لگے۔ دوبارہ پوچھنے پر اویس نامی پی ٹی آئی کارکن نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں فیصلہ عمران خان کے حق میں آئے لیکن ’ہم پریشان ہیں کیونکہ یہ کیس بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ یہ کیس سابق وزیر اعظم کی نجی زندگی سے جڑا ہوا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس میں ریلیف ملے۔‘
ایک اور کارکن محمد امجد بولے ’ہمیں یقین ہے کہ بشری بی بی کو ریلیف ضرور ملے گا۔ ہم نے مٹھائی بھی منگوا کر رکھ لی ہے۔‘
میں نے سوال کیا ابھی تو فیصلہ آنا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ’عمران کو ریلیف ملے یا نہ ملے بشری بی بی کو ضرور ملے گا۔‘
ٹھیک دوپہر تین بجے ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا کمرہ عدالت میں آئے اور بیٹھتے ہی کہا ’اپیل ڈسمس‘۔ کمرے میں موجود کارکنان جو شاید عدالتی زبان نہیں سمجھتے تھے، بظاہر حواس باختہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
جج نے تقریباً پانچ سیکنڈ میں دوران عدت نکاح کیس میں سزا معطل کرنے کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ سنائے جانے پر کمرہ عدالت میں اچانک خاموشی چھا گئی اور کارکنان بظاہر کنفیوز نظر آئے کہ فیصلہ آخر آیا کیا ہے؟
میرے ساتھ بیٹھی پی ٹی آئی کارکن صائمہ نے دھیمی آواز میں کہا ’جج آئے، بولے اور چلے بھی گئے۔ ہوا کیا ہے؟‘ میں نے جواب دیا سزا کو معطل کرنے کی درخواستیں مسترد ہو گئی ہیں۔
انہوں نے سوال کیا ’اور بشری بی بی؟‘ میں نے جواب دیا ان کی بھی درخواست مسترد ہو گئی۔ یہ سنتے ہی صائمہ کا چہرہ اتر گیا۔
کمرہ عدالت سے باہر آنے پر پی ٹی آئی کارکنان نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کر دی۔ فیصلہ سمجھنے پر وہ بظاہر افسردہ نظر آئے۔ انہوں نے کہا بشری بی بی کو ریلیف نہ ملنا شاک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال میں دو خواتین کارکن آبدیدہ ہو گئیں۔ قریب کھڑے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ’مجھے پتہ تھا یہی ہوگا کیونکہ ابھی تک دوسرا کیس تیار ہی نہیں ہوا۔‘
پی ٹی آئی رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا ’آج تک کسی کو نکاح کی سزا سات سال نہیں دی گئی، اس میں اتنی سزا ملنے سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔‘
کچہری سے باہر نکلنے پر پی ٹی آئی کے حامیوں کی بڑی تعداد نظر آئی جو شدید غصے میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف عمر ایوب جب اس ہجوم کے بیچ میں پہنچے تو کارکنان نے ان کا گھیراؤ کر لیا اور پوچھا ’باہر نکل کر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ ہم احتجاج کے لیے تیار ہیں، سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتے؟‘
اس دوران کارکنان نے عمر ایوب کے ساتھ دھکم پیل شروع کر دی اور ’شیم شیم‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ یہ سن کر عمر ایوب بظاہر پریشان نظر آئے، تاہم انہوں نے ان نعروں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
چونکہ عمر ایوب اپوزیشن لیڈر ہیں اس لیے ان کو سرکاری سکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی حامی جب ان کے گرد اکٹھے ہوئے تو سکیورٹی نے انہیں بچاتے ہوئے گاڑی کی جانب اشارہ کیا۔ سکیورٹی کی گاڑی کے پیچھے کھڑے کارکنان ان کی گاڑی کو لاتیں اور مکے مارتے رہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے جانے بعد بھی کچری کے باہر ہجوم میں کمی نہیں آ رہی تھی انہوں نے سڑک کو بلاک کر دیا اور کافی دیر تک گاڑیاں رش کم ہونے کا انتظار کرتی رہیں۔