ہم غصہ بے زبان ہی پر کیوں نکالتے ہیں؟

سندھ اور پنجاب کے زرعی علاقوں میں جانوروں کا فصلوں میں گھس جانا کچھ نیا نہیں ہے اور اس عمل کو مقامی زبان میں ’بھیل‘ کہا جاتا ہے۔

11 اگست 2017 کی اس تصویر میں سبی میں دو اونٹ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں جانوروں پر انسداد ظلم و جبر کے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان کی سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جرمانہ ہوتا ہے تو انتہائی چھوٹی رقم کا اور قید کی سزائیں بھی بہت کم ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی انگریز دور کے قوانین کو تبدیل کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

حال ہی میں سومر بھن نامی شخص کے اونٹنی کو نامعلوم ملزمان نے کلہاڑی کے ضرب مار کر کر بائیں ٹانگ کاٹ دی۔

اونٹنی کی آگے کی ایک ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دی گئی۔ اونٹنی کے مالک نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا تاہم یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

جانوروں پر ظلم و جبر سے تحفظ کے قانون پروبیشن آف کرویلٹی ٹو اینیمل ایکٹ 1890 کے تحت بھی اونٹ پر تشدد کا یہ عمل جرم ہے۔

 اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی زیر دفعہ 429 کے تحت دائر کیا گیا ہے جس کے مطابق ایک ہزار یا اس سے زائد مالیت کے کسی جانور کو مار دینا، زہر دینا، یا نقصان پہنچانا قابل دست جرم ہے جس کی سزا دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں ہوں گی۔

انگریزوں کے زمانے کے اس قانون کے مطابق اگر کوئی بھی ملزم پہلی بار جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو پانچ سو روپے جرمانہ اور ایک ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔

اگر تین سال کے عرصے میں دوسری بار یہ جرم کرتا ہے تو سو روپے جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا کا حقدار ہو گا۔

سندھ اور پنجاب کے زرعی علاقوں میں جانوروں کا فصلوں میں گھس جانا کچھ نیا نہیں ہے اور اس عمل کو مقامی زبان میں ’بھیل‘ کہا جاتا ہے۔

یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ اچھڑو تھر اور نارا کینال کے بیراجی علاقے میں کم از کم تین دہائیوں سے ایسے واقعات دیکھے جا رہے ہیں۔

 بھیل کرنے والے اونٹوں کو بعض زمیندار گاڑیوں کو دوڑا کر کچل کر مار دیتے ہیں یا ان کو گولیوں سے مار دیا جاتا ہے اور جواز یہ دیا جاتا ہے کہ کئی بار وارننگ دی تھی لیکن پھر بھی جانور کو نہیں روکا گیا۔

دیہی علاقے میں اگر کوئی جانور کسی کی فصل کو نقصان پہنچائے تو اس کا فیصلے مقامی طور پر کیا جاتا ہے۔

پولیس متنازع لاوارث، چوری اور ملزمان سے برآمد ہونے والے مال مویشیوں کو ’ڈھک‘ میں رکھتی ہے۔

یہ ڈھک اینیمل ہسبنڈری کا محکمہ چلاتا ہے جہاں ان جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام غیر فعال ہوگیا ہے۔

 شاید 2014 میں آخری مرتبہ کچھ جانور ڈھک میں بھیجے گئے تھے اور اب یہ نظام غیر فعال ہو چکا ہے۔

یاد ہے نا 2021 میں کراچی میں دو جرمن شیفرڈ کتوں نے ایک شخص پر حملہ کردیا اور بری طرح زخمی کیا؟

کیس ہوا اور عدالتی کارروائی جاری تھی کہ دونوں پارٹیوں میں صلح بھی ہو گئی۔ صلح نامے میں لکھا ہے کہ کتوں کا مالک غیر مشروط معافی مانگے گا اور وہ اور اس کا خاندان ’خطرناک اور خونخوار‘ کتے نہیں رکھیں گے۔

آئندہ اگر وہ کتے پالیں گے تو کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ساتھ رجسٹر کرائیں گے اور وہ کتے سڑک پر پیشہ وار کتے کے ہینڈلر اور زنجیر یا رسی کے بغیر نہیں لائے جائیں گے۔

چلو یہاں تک تو بات کچھ سمجھ آتی ہے کہ ان دو جرمن شیفرڈ کے مالک کی کوتاہی تھی کہ کتے ایسے شخص کے ساتھ سڑک پر نکلے ہوئے تھے جو ان کو نہ تو کنٹرول کر سکا اور نہ ہی کتوں نے اس کی بات سنی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یہ بھی درست ہے کہ جرمن شیفرڈ جیسے کتے جب آپ سڑک پر لے کر نکلیں تو باقی لوگ تو گھروں میں محصور نہیں ہوں گے بلکہ آپ کو چاہیے کہ کتوں کو پٹا باندھ کر سیر کرائیں۔

لیکن اس صلح نامے کی تیسری شق نے مجھے بہت پریشان کر دیا۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر ان دونوں کتوں کو مار دیا جائے اور اگر مالک کے پاس کوئی اور کتا ہے تو وہ بھی جانوروں کے ڈاکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔

اس میں کتوں کا کیا قصور تھا؟

جرمن شیفرڈ نہایت ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ایکٹو اور ایتھلیٹک نسل ہے جن کو اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے بہت زیادہ ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان کو زیادہ یا مناسب ورزش نہ ملے تو ممکنہ طور پر نامناسب رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔

ضروری ہے کہ ان کو روزانہ سیر کرائی جائے اور کھیل کود کرائی جائے۔ سب سے ضروری ہے کہ کتوں کو چھوٹے ہوتے سے ہی تربیت دی جائے۔ تربیت میں عام طور پر کتوں کا دوسرے کتوں اور انسانوں سے ملنا شامل ہوتا ہے۔

قوانین کے ہوتے ہوئے بھی آخر ہم بے زبانوں ہی پر اپنا غصہ کیوں نکالتے ہیں؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ