محصولات نہ بڑھیں تو آئی ایم ایف سے مزید مدد لینی پڑے گی: وزیر

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ٹیکس محصولات میں اضافہ نہیں کرتا تو مستقبل میں بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مزید پروگرام لینے پڑیں گے۔

15 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان کے وزیرخزانہ محمد اورنگزیب امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں اے ایف پی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے دوران(اے ایف پی)

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ٹیکس محصولات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتا تو مستقبل میں بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید پروگرام لینے پڑیں گے۔

اتوار کو برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کے لیے ’نسبتاً پراعتماد‘ ہے جس کے حجم کا تخمینہ چھ سے آٹھ ارب ڈالر کے درمیان ہے۔

تاہم وزیرخزانہ نے کہا کہ ’اگر ہم اپنے ٹیکس ریونیو میں اضافہ نہیں کرتے ہیں تو یہ ہمارا آخری بیل آؤٹ پروگرام نہیں ہو گا۔‘

حکومت پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج اس کی معیشت کو مستحکم کرے گا جو دوہرے ہندسے میں موجود افراط زر، سست شرح نمو اور کم غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے مشکلات کا شکار ہے۔

پاکستان کے معاشی اشاریوں میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران بہتری ریکارڈ کی گئی ہے جہاں جون میں مہنگائی کی شرح 12.6 فیصد تک گر گئی ہے جو مئی 2023 میں ریکارڈ 38 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔

دوسری جانب سٹاک مارکیٹ سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں جب کہ مرکزی بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئے ہیں۔

اس صورت حال پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ ’یہ عوامل معاشی سفر کی سمت کو مثبت ظاہر کر رہے ہیں اور سرمایہ کار سٹاک مارکیٹ پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔‘

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی ٹیکس اتھارٹی، فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) پر عوام کا اعتماد کم ہوا ہے۔

ان کے بقول: ’لوگ بدعنوانی، ہراساں کیے جانے، لوگوں کی جانب سے سپیڈ منی، فیسیلیٹیشن منی  کی وجہ سے ٹیکس اتھارٹی سے ڈیل نہیں کرنا چاہتے۔ یہ (صورت حال) پائیدار نہیں ہے۔‘

وزیر خزانہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی معیشت کس طرح درآمدات پر انحصار کر رہی ہے اور یہ کہ اسلام آباد کو موجودہ یا پہلے سے موجود قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہمیں قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ معیشت درآمد پر انحصار کرتی رہے گی تو ہمیں ڈالرز کی کمی کا سامنا بھی رہے گا اور ایسی پریشان کن صورت حال میں ہمیں آخری سہارے کے طور پر اپنے گھٹنوں کے بل قرض دینے والے کے پاس واپس جانا پڑتا ہے۔‘

وزیر خزانہ کا یہ بیان پاکستان کے صدر کی جانب سے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ پر دستخط کرنے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے جسے حزب اختلاف، تجارتی اداروں اور حتیٰ کہ اتحادی جماعتوں نے بھی بڑے ٹیکس کے اہداف کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کے مطابق رواں مالی سال کے بجٹ میں بھاری ٹیکس کا مقصد جولائی 2025 تک 13ہزار ارب روپے (46.6 ارب ڈالر) اکٹھا کرنا ہے جو موجودہ مالی سال سے تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔

مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ کا مقصد آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا ہے جس نے بارہا اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی کمزور معیشت میں ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس اصلاحات لائے۔

اپریل سے وزیر اعظم شہباز شریف پاکستان کے اہم شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا دورہ کر چکے ہیں۔

ان کی حکومت نے بارہا پاکستان کے اتحادیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ قرضے نہیں بلکہ باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری چاہتے ہیں۔

محمد اورنگزیب نے خلیجی سرمایہ کاروں کے ’ایکویٹی اور بورڈ‘ کے مطالبات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم حقیقت پسند ہونا پڑے گا۔

’گیند ہمارے کورٹ میں ہے اور ہمیں بینکنگ اور سرمایہ کاری کے قابل منصوبے پیش کرنا ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان