غزہ امن معاہدے پر اب تک کتنی پیش رفت ہو چکی ہے؟

مذاکرات کار خفیہ مذاکرات میں مصروف ہیں تاہم دونوں فریقوں کے لیے کسی قابلِ قبول معاہدے تک پہنچنے کا سفر آسان نہیں۔

غزہ کی پٹی کے ساتھ اسرائیل کی جنوبی سرحد کے قریب سے لی گئی اس تصویر میں نو جولائی 2024 کو اسرائیلی بمباری کے بعد غزہ پر دھواں اٹھتا ہوا دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

قطر اور مصر ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیل اور حماس کو ایک منصوبے پر مذاکرات کے لیے تیار کرنے میں مصروف ہیں جس کے تحت غزہ پر اسرائیلی حملے بند ہو جائیں گے جن میں ہزاروں فلسطینی شہری جان گنوا چکے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے پہلی بار مئی کے آخر میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے اسرائیلی اقدام کا خاکہ پیش کیا۔ اب قطر اور مصر اسرائیل اور حماس کے ساتھ خفیہ رابطوں میں مصروف ہیں جنہوں نے اس ہفتے ہونے والے مذاکرات سے قبل سفارتی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

ہم فائر بندی کے لیے کوششوں کے بارے کیا جانتے ہیں؟

اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے کوششوں کی ناکامی کے بعد بین الاقوامی سطح پر فائربندی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ کا زیادہ تر حصہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کے 24  لاکھ وقفے وقفے سے ملنے والے امدادی سامان پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کی کوششوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ تاہم وہ اندرون مخالفت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی دباؤ کا بھی سامنا کر رہے ہیں، جس میں ان کا اہم اتحادی امریکہ بھی شامل ہے۔

حماس نے سات اکتوبر کو 251 اسرائیلی شہریوں کو قیدی بنایا جن میں سے 116 غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 42 قیدی جان سے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے مطابق حماس کو سات اکتوبر بعد سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں غزہ میں کم از کم 38 ہزار 243 افراد کی جان جا چکی ہے جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فائربندی منصوبہ

بائیڈن نے 31 مئی کو کہا کہ اسرائیل پائیدار فائر بندی اور تمام قیدیوں کی رہائی کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل روڈ میپ کی تجویز دے رہا ہے۔

پہلا مرحلہ: بائیڈن کا کہنا تھا کہ چھ ہفتے پر مشتمل پہلے مرحلے میں ’پوری اور مکمل فائر بندی‘ شامل ہوگی۔ غزہ کے آبادی والے تمام علاقوں سے اسرائیلی افواج واپس چلی جائیں گی۔ سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں خواتین، بزرگوں اور زخمیوں سمیت متعدد اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

دوسرا مرحلہ: بائیڈن نے کہا کہ فریقین کے اتفاق کی صورت میں وہ ’دشمنی کے مستقل خاتمے‘ کے لیے مذاکرات کریں گے۔ اس میں تمام زندہ قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہو گی اور اسرائیلی افواج غزہ سے نکل جائیں گی۔ بائیڈن نے کہا کہ جب تک مذاکرات جاری رہیں گے، فائر بندی بھی جاری رہے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ قطری ثالثوں نے اسرائیلی جارحیت کے مستقل خاتمے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جبکہ مصر کا زیادہ تر کردار قیدیوں کے تبادلے کی تیاری اور غزہ میں امداد کی فراہمی میں رہا ہے۔

تیسرا مرحلہ: بائیڈن نے اس مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے  بڑا منصوبہ تیار کرنے اور مر جانے والے قیدیوں کی باقیات کی واپسی کا وعدہ کیا۔ امریکہ نے اس عمل میں شمولیت کا وعدہ کیا ہے لیکن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستیں اہم کردار ادا کریں گی۔

کام کا آغاز

بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کو بھی کامیابی تصور کیا جائے گا۔

ثالثی پر نظر رکھنے والے سفارت کار کے مطابق: ’فریقین کی ایک دوسرے سے نفرت اور بداعتمادی کے پیش نظر سب سے بڑی مشکل انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے میں ہو گی۔ کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔‘

گذشتہ ہفتے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا نے دوحہ کا دورہ کیا جس کے بعد نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ ’خلا‘ باقی ہیں۔

برنیا اس ہفتے دوبارہ دوحہ جائیں گے۔ وہ اس وقت قاہرہ میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے ساتھ ہیں۔

سی آئی اے کے سربراہ نے منگل کو مصر کے صدر عبدالفتح السیسی سے ملاقات کی۔ توقع ہے کہ وہ بدھ کو دوحہ پہنچیں گے۔

نتن یاہو کے سخت مطالبات کو برقرار ہیں۔ ان کے دفتر کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی معاہدے کے تحت اسرائیل اس وقت لڑائی دوبارہ شروع کر سکے گا جب تک جنگ کے تمام مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔‘

نتن یاہو کے دفتر نے مزید کہا کہ مجوزہ معاہدے میں ’حماس کے لیے مصر سے ہتھیارسمگلنگ نہ کرنے اور ہزاروں مسلح افراد کے دوبارہ شمالی غزہ کی پٹی میں واپس نہ آنے کی ضمانت دی جائے گی۔

حماس، جس نے اسرائیلی افواج کے واپسی کا مطالبہ کیا ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے مستقل فائربندی کا وعدہ کرنے کے مطالبے میں نرمی کی ہے، نیتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ شہر اور رفح پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی وجہ سے ’مذاکراتی عمل نئے سرے سے شروع کرنا پڑ جائے گا۔‘

نقصانات

تنازع جاری رہنے کی صورت میں فریقین کو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔

بائیڈن نے اپنے اتحادی اسرائیل کو متنبہ کیا کہ ’مکمل فتح‘ کے مبہم تصور کے تعاقب میں غیر معینہ مدت کی جنگ کا نتیجہ صرف یہ نکلے گا کہ اسرائیل غزہ میں پھنس جائے گا۔ اس کے معاشی، فوجی اور انسانی وسائل بری طرح متاثر ہوں اور وپ دنیا میں مزید تنہا ہو جائے گا۔‘

ماہرین کے مطابق حماس اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے اور اس کا ماننا ہے کہ وہ اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے۔

تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں مشرق وسطیٰ کے ماہر احمد فواد الخطیب نے کہا کہ اسرائیل حماس کا صفایا نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا: ’اسرائیل کی جنگی منصوبہ بندی کی ناکامیوں اور فلسطینی معاشرے میں حماس کی گہری جڑوں کی وجہ گروپ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی قابل عمل فوری متبادل موجود نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا