موجودہ حالات میں فون ٹیپ کرنے کی حمایت کروں گا: خواجہ آصف

پاکستانی وزیر دفاع کے مطابق ’دہشت گردی کی جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں تو اس کے خلاف یہ نوٹیفیکیشن ہوا ہے، تو میں موجودہ حالات میں اس کی حمایت کروں گا۔‘

پاکستان میں وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی کے مفاد میں کسی جرم کے خدشے کے پیش نظر حساس اداروں کو کال میں مداخلت یا سراغ لگانے کا اختیار دے دیا ہے، اس معاملے پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں تو ’میں فون ٹیپ کرنے کی حمایت کروں گا۔‘

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’یہ معاملہ قانونی مراحل سے گزر رہا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کے معاملات میں یہ ضروری ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں تو اس کے خلاف یہ اعلامیہ جاری ہوا ہے تو میں موجودہ حالات میں اس کی حمایت کروں گا۔‘

خواجہ آصف نے حزب اختلاف  کے اعتراضات پر کہا کہ ’عمر ایوب اور پی ٹی آئی کے جو لوگ اعتراضات کر رہے ہیں وہ عمران خان کے فون ٹیپنگ پر فرمودات بھی سن لیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ میرے بھی فون ٹیپ ہوتے اور ضرور ٹیپ ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاشقہ چل رہا تھا۔

’اس لیے ان کی ہر جائز ناجائز بات اچھی لگ رہی تھی جبکہ آج ان کے فالوورز کو وہی بات نفرت انگیز لگ رہی ہے۔ پہلے یہ خود ٹیپنگ کرواتے تھے اپنی بھی اور دوسروں کی بھی، اور خوشی کے ساتھ کہتے تھے کہ ٹیپنگ ضرور ہونی چاہیے۔‘

پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ فون ٹیپنگ کے معاملے پر آئین بہت واضح ہے۔ آئین کا یہی مدعا ہے کہ پرائیوسی کسی کی متاثر نہ ہو اور کوئی فون ٹیپنگ نہیں کر سکتا، ہاں البتہ جو لوگ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں ان پہ نظر رکھنا ایک الگ بات ہے۔ لیکن ایسا بلیکنٹ قسم کا نوٹیفیکیشن آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے سپریم کورٹ میں گذشتہ برس فون ٹیپنگ پر درخواست دائر کی تھی۔ میں سپریم کورٹ سے درخواست کروں گا کہ ہماری درخواست مقرر کریں۔‘

’عمران خان جب وزیراعظم تھے تو ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر کہتے تھے کہ فون ریکاڑد کرنا حساس اداروں کا کام ہے اور یہ وہ ہماری بہتری کے لیے کرتے ہیں۔‘ اس سوال کے جواب میں چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مسکرا کر کہا کہ ’جو بھی ہے آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔‘

پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ ’ذاتی طور پر تو میں اس فون ٹیپنگ کے معاملے پر خوش نہیں ہوں لیکن چونکہ ابھی تفصیل دیکھی نہیں ہے تو علم نہیں کہ اس کی وجوہات اور تناظر کیا ہے۔‘

وفاقی کابینہ نے آٹھ جولائی کو سمری کی منظوری دے تھی۔ جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ’ایک حساس ادارے کے نامزد افسر کو کال یا میسج میں مداخلت یا کال کو ٹریس کرنے کا اختیار ہو گا۔

کابینہ نے نامزدگی کا اختیار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کے سیکشن 54 کے تحت دیا گیا ہے۔ ایجنسی جس افسر کو نامزد کرے گی وہ گریڈ 18 سے کم درجے کا نہیں ہو گا۔ سیکشن 54 کے تحت وفاقی حکومت کو قومی سلامتی کے لئے کسی افسر کو نامزد کرے گی۔‘

آڈیو ٹیپنگ کے معاملے کا پس منظر کیا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نجم الثاقب اور بشریٰ بی بی آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے وفاقی کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے فون ٹیپنگ کے آفیشل اختیارات پر استفسار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ لوگوں کی پرائیویسی میں کیسے گھس رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے 25 جون کے حکم نامے میں کہا کہ ’فون ٹیپنگ کی قانونی حیثیت کو دیکھنا ہے، کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت دینے کا کوئی قانون موجود نہیں، جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے، ٹیلی کام کمپنیاں بغیر کسی سکروٹنی کے شہریوں کا ڈیٹا دے رہی ہیں تو وہ برابر کی ذمہ دار ہیں۔

’ایک قانون ہے 11 سال میں ایک دفعہ بھی کسی نے ڈیٹا لینے کے لیے وارنٹ نہیں لیے، پاکستان واحد ملک نہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، نائن الیون کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں یہ صورت حال بنی۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کو آڈیو لیکس مقدمے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا ہے کہ ’لاپتہ افراد کے کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈیٹا خفیہ اداروں کو دینے کی ہدایت کی تھی، اسی پالیسی کے نظام کے مطابق ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 2013 میں نئی پالیسی آئی، وزارتِ داخلہ نے ایک ایس او پی جاری کیا تھا جس کے مطابق خفیہ ادارے کی طرف سے مجاز افسر ڈیٹا کی درخواست کرتا ہے، آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست سروس پروائیڈر سے ڈیٹا لے سکتی ہیں، دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ضرورت پڑنے پر ان ایجنسیز سے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔

پی ٹی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا ’کسی ادارے کو بھی سرویلنس کی اجازت نہیں دی گئی۔‘

آڈیو لیکس حکم نامہ سپریم کورٹ میں چیلنج

وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 25 جون کا حکم نامہ پانچ جولائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا کہ ’اداروں کے سربراہان کی طلبی اور ان سے رپورٹس منگوانا فیکٹ فائنڈنگ کے مترادف ہے۔

نجم الثاقب کی درخواست پارلیمانی کمیٹی کی طلبی کے خلاف تھی جو معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ غیر موثر درخواست کے نکات سے ہٹ کر کارروائی کر رہی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں لہذا عدالت کا 25 جون کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان