سابق صدر اور رپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکی صدر جو بائیڈن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک اور مباحثے کے علاوہ گالف کھیلنے کا چیلنج بھی دے دیا ہے۔
گذشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے مباحثے میں ناقص کارکردگی کے بعد جو بائیڈن کو تند و تیز سوالات کا سامنا ہے اور بعض ڈیموکریٹس کی طرف سے بھی ان سے صدارتی انتخابات سے دستبردارہونے کا مطالبہ سامنے آیا لیکن بائیڈن انہیں رد کر چکے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جو بائیڈن سے صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونے کے مطالبے زور پکڑنے کے بعد فلوریڈا میں یہ ٹرمپ کی پہلی عوامی تقریر تھی۔
تقریباً 75 منٹ کی تقریر، جس میں ان کی پوری توجہ 81 سالہ انتخابی حریف جو بائیڈن پر تھی، کے آغاز میں ٹرمپ نے گرجتے ہوئے کہا: ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ سب امریکی عوام کو اوول آفس میں اس شخص کی علمی صلاحیتوں کے بارے میں دھوکہ دینے کی مذموم سازش میں شریک ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موجودہ امریکی صدر کو ایک اور مباحثے کے علاوہ گالف کھیلنے کا چیلنج دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’یہ تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے کھیلوں کے مقابلوں میں سے ایک ہوگا، شاید رائیڈر کپ یا ماسٹرز سے بھی بڑا۔‘
انہوں نے کہا: ’میں جو بائیڈن کو 10 سٹروک بھی دوں گا اور اگر وہ جیت گئے تو میں ان کی پسندیدہ کسی بھی خیراتی تنظیم کو 10 لاکھ ڈالر دوں گا۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کریں گے۔‘
لیکن بائیڈن کی انتخابی مہم کی طرف سے جواب میں کہا گیا: ’جو بائیڈن کے پاس ڈونلڈ ٹرمپ کی عجیب و غریب حرکتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔‘
میامی میں اپنے ڈورل نیشنل گالف ریزورٹ میں ہونے والی ریلی کے زیادہ تر حصے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی معمول کی تقریر میں امریکہ کو تباہی کے دہانے پر کھڑا قرار دیا اور ایک ایسی دنیا کے بارے میں بتایا جسے ممکنہ جوہری ہتھیاروں کی جنگ کا سامنا ہے۔
کانگریس میں ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی جانب سے صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونے سے انکار کے بعد ماحول ’انتہائی سنجیدہ‘ ہے۔
صدر جو بائیڈن کی پارٹی کے ارکان اس ہفتے جب ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں کام کے لیے کیپیٹل ہل واپس پہنچے تو ان کی جانب سے بہت کم جوش و خروش دیکھا گیا۔
منگل کو ہونے والے اجلاسوں میں شریک ڈیموکریٹس نے نامہ نگاروں کو دو اہم باتوں کا اشارہ دیا کہ ’جو بائیڈن دوڑ سے باہر نہیں ہوں گے اور یہ کہ ان کی اپنے کچھ حامیوں کو قائل کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے کہ وہ صدارتی انتخاب لڑنے اور وائٹ ہاؤس میں مزید چار سال خدمات انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔‘
حتیٰ کہ وہ لوگ، جنہوں نے بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ سخت فیصلہ کریں اور دوڑ سے دستبردار ہوجائیں، جیسا کہ عدلیہ کے سینیئر رکن جیری نیڈلر نے منگل کو نامہ نگاروں کے سامنے اعتراف کیا کہ ’وہ (بائیڈن) بند گلی میں ہیں۔‘