سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں کے کیس میں بدھ کو تحریری معروضات جمع کروائے ہیں، جن میں انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’انصاف کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس میرے مقدمات سے خود کو الگ کرلیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کیس کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی تھی اور دلائل مکمل ہونے کے بعد گذشتہ ماہ چھ جون کو فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فریقین تحریری معروضات جمع کروا سکتے ہیں۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
اس کیس میں عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک حاضری بھی یقینی بنائی اور عمران خان چونکہ اس کیس میں مرکزی درخواست گزار تھے، اس لیے ان کے دلائل بھی سنے گئے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے تحریری جواب میں ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست کی کہ ’چیف جسٹس ان سے متعلق مقدمات کی سماعت نہ کریں۔‘
بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے اپیلیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مزید کہا: ’کسی شخص کی کرپشن بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم ’بنانا رپبلک‘ میں بھی نہیں ہوتی۔ کرپشن معیشت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ دوران سماعت مجھ سے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ترامیم کا فائدہ آپ کو بھی ہو گا، لیکن میرا موقف واضح ہے کہ یہ میری ذات کا نہیں بلکہ ملک کا معاملہ ہے۔ پارلیمنٹ کو آئین کے اندر رہ کر قانون سازی کرنی چاہیے۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ’نیب اگر اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے تو ترامیم اسے روکنے کی حد تک ہونی چاہییں۔ اختیار کے غلط استعمال کی مثال میرے خلاف نیب کا توشہ خانہ کیس ہے۔ نیب نے میرے خلاف کیس بنانے کے لیے ایک کروڑ80 لاکھ کے ہار کو تین ارب 18 کروڑ کا بنا دیا۔ ماضی میں کرپشن کرنے والوں نے قوانین اور پارلیمنٹ کو اپنی ڈھال بنایا۔ کرپشن کو بچانے کے لیے کی گئی ترامیم عوام کا قانون پر سے اعتبار اٹھا دیتی ہیں۔ قوانین کا مقصد کسی فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہونا چاہیے اور سپریم کورٹ کو حقائق کے سامنے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہییں۔‘
نیب ترامیم کیس: کب کیا ہوا؟
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اس درخواست پر سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل عدالت عظمیٰ نے اس کیس کا فیصلہ جاری کیا، جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی۔
اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کرکے انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی عدالت نے نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کیا تھا۔
یہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے سنایا تھا، جس میں چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعدازاں گذشتہ برس 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
اپیل میں وفاق، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
پی ڈی ایم حکومت نے نیب میں کیا ترامیم کی تھیں؟
نیب کے قانون میں 27 ترامیم تھیں۔ نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی جا سکتی تھی۔
نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت جہاں جرم کا اتکاب ہوگا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔
بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی، جبکہ ملزمان کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔
نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے، تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔