خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کی زبردست کامیابی کو ایک قابل ذکر مسئلہ درپیش ہے: اس کے بنیادی مسلم ووٹروں کے ایک حصے نے اس کی بجائے فلسطین کے حامی آزاد امیدواروں کی حمایت کا انتخاب کیا۔
نتیجے کے طور پر غزہ کے چار حامی ارکانِ پارلیمان لیبر پارٹی کے حریفوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے، اس کے ساتھ ساتھ جیریمی کوربن، جو پارٹی کے طویل عرصے سے فلسطین کے حامی سابق رہنما ہیں، برطانیہ کی نئی پارلیمنٹ میں مشترکہ چھٹی سب سے بڑی پارٹی بن گئے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیبر پارٹی کے بائیں سمت ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہے، جس کا پہلے گمان کیا جا رہا تھا۔
سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی انتقامی جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہونے والے مظاہروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ برطانیہ کے رائے دہندگان کے کچھ حصوں کے لیے تشویش کا باعث ہے اور انتخابی نتائج کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان حلقوں میں لیبر کی اکثریت کم ہو رہی ہے، جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔
نئے وزیراعظم کیئر سٹارمر جب حزبِ اختلاف کے رہنما تھے تو فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے سے ہچکچاتے تھے، جس کی وجہ سے اس وقت ان کی پارٹی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پھر کہیں جا کر فروری میں لیبر نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد سے اس نے کوئی قطعی ٹائم لائن بتائے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عہد کیا ہے، لیکن اس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
لیبر پارٹی کے ووٹ ان نشستوں پر اوسطاً 11 پوائنٹس گرے جہاں 10 فیصد سے زیادہ آبادی خود کو مسلمان کے طور پر شناخت کرتی ہے۔ یہ خطرناک بات ہے کہ جب مشرق وسطیٰ کی سیاست بڑے برطانوی شہروں میں کچھ برادریوں کے لیے اہم انتخابی مسئلہ بن جاتی ہے، بجائے گھریلو مسائل کے، جیسے ہسپتال، سکول، مہنگائی کا بحران، ٹیکس وغیرہ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانیہ کے پانچ میں سے چار مسلمانوں نے 2019 میں لیبر کو ووٹ دیا، جس سے ان دونوں کے درمیان تاریخی روابط کو تقویت ملی، جو 1950 اور 1960 کی دہائی میں پاکستان سے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کے بعد بنے تھے۔
تاہم لندن میں مقیم ریڈیو سٹیشن ’ایل بی سی‘ کے مطابق ان نشستوں پر جہاں مسلمان آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ہیں، لیبر کے ووٹ میں اس بار 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
حکومت کو اقتدار کے ابتدائی دنوں میں اپنی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے اور اپنی ترجیحات کو فوری طور پر حل کرنا چاہیے اور صرف ایک ہی مسئلے کی سیاست نہیں کرنی چاہیے، جیسا کہ سبکدوش ہونے والی کنزرویٹو حکومت اور اب غزہ کے ساتھ امیگریشن اور بریگزٹ کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ برطانیہ کی سیاست براعظم یورپ کی طرز پر منقسم نہ ہو، جہاں کٹر دائیں بازو والے اور پاپولسٹ سیاست دان ایک ہی مسئلے پر مبنی قابل اعتراض انتخابی مہمات چلانے کے بعد زیادہ سے زیادہ ووٹ جیت رہے ہیں۔ وہ ان مسائل کو کانوں کے کچے ووٹروں کے درمیان پھیلا دیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر مجھے معلوم نہیں ہے کہ نئے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کے پاس یوکرین روس جنگ کے معاملے سے نمٹنے کے لیے درکار بین الاقوامی ذہانت، ساکھ اور وزن ہے یا نہیں، یا آیا وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے میں برطانیہ کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا وہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے دوسرے فلیش پوائنٹس پر نظر رکھ سکتے ہیں، جن میں یمن سے ایران براستہ شام، عراق، لبنان اور بحیرہ احمر کے مسائل شامل ہیں۔
یہ ایک ایسا وقت ہے جب برطانیہ کی خارجہ پالیسی کی حیثیت کو زک پہنچی ہے، جو بقول لیمی کم از کم 14 سال کی کنزرویٹو پارٹی کی حکومت کے بعد ’اندرونی بحث میں پھنس گئی تھی۔‘ یہ حکومت اکثر اتحادیوں کے ساتھ متضاد انداز میں کام کرتی تھی اور اس میں یورپی یونین کے منصوبے سے برطانیہ کے اخراج پر بات چیت کے علاوہ سمت کا احساس نہیں تھا۔
اگر برطانیہ کو اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں کچھ توازن اور طاقت دوبارہ حاصل کرنے کے قابل ہونا ہے تو لیمی کا ’عالمی برادری‘ کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کا ابتدائی وعدہ ضروری ہو سکتا ہے اور اگرچہ نئے وزیرخارجہ کی اپنی ترجیحات درست ہیں، لیکن جس دنیا سے انہیں نمٹنا پڑے گا، وہ یوکرین سے لے کر ماحولیاتی تبدیلی تک ہر چیز پر خطرناک، منقسم اور متضاد ہے، جس میں کچھ سپر پاورز کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور دیگر آپس میں سینگ لڑا رہے ہیں، جس سے سفارت کاری کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔
یورپ کے بارے میں لیمی نے کہا کہ ملک کو ’بریگزٹ کے سالوں کو پیچھے چھوڑنے کی ضرورت ہے۔‘ سٹارمر نے یقین دہانی کروائی ہے کہ برطانیہ سنگل مارکیٹ یا کسٹمز کی یونین میں دوبارہ شامل نہیں ہو گا، اس نقصان کے باوجود کہ بریگزٹ نے برطانیہ کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل کی ترقی یورپ کے ساتھ تجارت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
اگر برطانیہ اور دوسرے ملکوں کے انتخابات نے ہمیں کچھ سکھایا ہے، تو وہ یہ ہے کہ ملک سے باہر کے معاملات پر مبنی مہم پارلیمنٹ یا حکومت کی تشکیل کو بڑی آسانی سے متاثر کر سکتی ہے۔
برطانیہ کے ساتھ ازسرنو تشکیل دیے گئے تعلقات کا پہلا قدم مشترکہ وژن اور سلامتی کے تعاون پر مبنی ہو سکتا ہے، چاہے تجارتی فوائد کو بعد میں ہی استوار کیا جائے اور اس مشترکہ وژن سے، کرہ ارض کے چاروں کونوں میں پھیلی ہوئی مشکلات سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین اور برطانیہ کے تعاون میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ طور پر اقتدار میں انتہائی خلل ڈالنے والی واپسی اور وائٹ ہاؤس میں ان کی سیاست کے انداز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا اور اس بات پر غور کرنا شامل ہو سکتا ہے کہ انتہائی دائیں بازو اور عوامیت پسند سیاست دانوں سے کس طرح بہتر طریقے سے نمٹا جائے جو ممکنہ طور پر یورپی یونین میں شامل ملکوں میں اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
بہت زیادہ اگر مگر کی وجہ سے غزہ کے بارے میں برطانیہ کی نئی حکومت کے موقف پر اثر انداز ہونے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے اس کی پہلے ہی کئی نشستیں ضائع ہو چکی ہیں۔
امکان ہے کہ لیمی کو غزہ کی جنگ سے نمٹنے اور اسرائیل کو برطانیہ کے ہتھیاروں کی فروخت جیسے مسائل پر پارٹی کے بائیں بازو کی جانب سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیبر کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے عزم کو ایک نئے امن عمل میں شراکت کے طور پر احتیاط سے مرتب کرے، جس کے نتیجے میں دو ریاستی حل نکلنا چاہیے۔ تاہم یکطرفہ اقدامات کر کے نومبر کے امریکی انتخابات کے تناظر میں بائیڈن انتظامیہ یا برطانوی یہودی ووٹروں کو الگ تھلگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہے گی۔
اگر برطانیہ اور دوسرے ملکوں کے انتخابات نے ہمیں کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ ملک سے باہر کے معاملات پر مبنی مہم پارلیمنٹ یا حکومت کی تشکیل کو بڑی آسانی سے متاثر کر سکتی ہے۔ لیبر کے نقصانات اگرچہ اس بار معمولی تھے، زیادہ تر ’دی مسلم ووٹ‘ نامی مہم کی وجہ سے تھے، جو اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مسلم مفادات کی حمایت کے لیے کام کر رہی ہے۔
اگرچہ برطانوی مسلم برادری میں سے کچھ لوگ اس گروپ کی کامیابی سے مطمئن اور حوصلہ مند محسوس کر سکتے ہیں، لیکن لیبر پارٹی مسلم اور دیگر اقلیتی ووٹروں کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔
2003 میں عراق پر حملے کے بعد مسلم رائے دہندگان نے لیبر کو سزا دی، لیکن ان کا انحراف مستقل نہیں تھا۔ اس بار معاملات مختلف ہو سکتے ہیں، لہذا لیبر کو اگر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنی ہے اور ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک سے زیادہ مدت کے لیے راہ ہموار کرنی ہے، تو اسے تیزی سے بدلتی اور باہم مربوط دنیا میں رائے دہندگان کے کچھ حصوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔
بشکریہ: عرب نیوز
کالم نگار محمد شبارو لبنان نژاد برطانوی صحافی ہیں جو جنگ، دہشت گردی، دفاع، حالات حاضرہ اور سفارت کاری کی کوریج کا 25 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ میڈیا کنسلٹنٹ اور ٹرینر بھی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔