برطانیہ میں چار جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ایوان زیریں یعنی دارالعوام کے منتخب ہونے والے لیبر پارٹی سے وابستہ پاکستانی نژاد رکن افضل خان نے کہا ہے کہ برطانیہ میں موجود 15 لاکھ برٹش پاکستانی لندن اور اسلام آباد کے تعلقات میں پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں مانچسٹر سے کامیابی حاصل کرنے والے افضل خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے لیبر پارٹی کی پاکستان سے متعلق پالیسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’لیبر پارٹی 14 سال اپوزیشن میں رہنے کے بعد اب حکومت میں آ رہی ہے اور میرے یہی دلائل رہے ہیں کہ ہماری آواز پارٹی کے اندر مضبوط ہونی چاہیے۔ یہاں 15 لاکھ پاکستانی نژاد افراد آباد ہیں جن میں سے 80 فیصد کی سیاسی وابستگی لیبر پارٹی کے ساتھ ہے اس لیے اگر ہماری آواز اندر سے مضبوط ہو گی تو ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے مواقع زیادہ ہوں گے۔‘
افضل خان نے مزید کہا کہ ’برطانیہ میں 15 لاکھ پاکستانی آباد ہیں جن کی اکثریت دہری شہریت رکھتی ہے اس لیے وہ (دونوں ممالک کے تعلقات میں) پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں اس لیے ہم اس (تعلقات) کو جتنا مضبوط کریں گے یہ اتنا ہی مضبوط ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’لیبر پارٹی کے نو منتخب اراکین میں پاکستانی نژاد رہنما شاید پارٹی میں 15 سے 16 نشتوں کے ساتھ سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہے اور ان کا بھی کام ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور حکومت پاکستان اور نئی برطانوی حکومت میں بھی ہماری آواز مضبوط ہو گی تو فطری طور پر تعلقات بہتر ہوں گے۔‘
افضل خان نے کہا کہ احتجاج کے بجائے پاکستانی کمیونٹی کو لابنگ اور دیگر طریقوں سے اپنی آواز مضبوط کرکے اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ ہمارا مفاد اس میں ہے کہ پاکستانی کمیونٹی لیبر اور ٹوری دونوں جماعتوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے۔‘
لیبر پارٹی کی اسرائیل نواز پالیسی؟
لیبر پارٹی کی غزہ میں جاری جارحیت اور اسرائیل نواز پالیسی کے سوال پر افضل خان نے کہا کہ ’برطانیہ میں مسلم اور پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دیگر برطانوی شہری بھی غزہ میں انسانی صورت حال کو پسند نہیں کر رہے اور ان کو بھی اس کی تکلیف بھی ہے۔ لیبر پارٹی کی اس حوالے سے پوزیشن کو جھوٹ سچ ملا کر پیش کیا ہے اور حقیقت کو توڑ مروڑ دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سات اکتوبر کے واقعے کے بعد لیبر پارٹی کی جو پوزیشن تھی وہ قابل قبول نہیں تھی اسی لیے نومبر میں میرے سمیت لیبر کے آٹھ شیڈو منسٹرز نے لیبر پارٹی سے مخالفت کرتے ہوئے استعفیٰ دیا اور 56 لوگوں نے اس پوزیشن کے خلاف ووٹ دیا جس کے بعد پارٹی بھی سوچنے پر مجبور ہوئی اور اس تبدیلی کے بعد رواں سال فروری میں ہم نے تاریخ میں پہلی بار فائر بندی کے لیے تحریک پاس کی تھی۔‘
نو منتخب رکن برطانوی پارلیمنٹ نے کہا کہ ’کمیونٹی میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اسرائیل کے حوالے سے ٹوری اور لیبر میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ فروری سے لیبر کی پالیسی بدل چکی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ فوری فائر بندی ہونی چاہیے، رفح پر حملہ نہ ہو اور فلسطینیوں کی مدد بھی ہو، بین الاقوامی قوانین کی پابندی ہو اور اسرائیل کو بھی فالو کرنا چاہیے۔‘
افضل خان نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’انتخابات سے چند روز پہلے ہمارے شیڈو وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اگر عالمی عدالت انصاف اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے تو انہیں برطانوی سرزمین سے گرفتار کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ لیبر پارٹی حکومت میں آنے کے بعد فوری فائر بندی کے لیے اپنا وزن ڈالے گی اور یہ ہی اس کا اس حوالے سے امتحان ہو گا۔