کمانڈر الضیف اسرائیلی حملے کے وقت کیمپ میں نہیں تھے: حماس

13 جولائی کو المواصی کیمپ پر اسرائیلی حملے کے بعد حماس کے ایک عہدیدار نے  اے ایف پی کو بتایا: ’کمانڈر محمد الضیف ٹھیک ہیں اور براہ راست حماس کے عسکری ونگ کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘

حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کو کہا ہے کہ گروپ کے عسکری ونگ ’عز الدین القسام بریگیڈ‘ کے جنرل کمانڈر اور اسرائیل کے خلاف ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ شروع کرنے والے محمد الضیف جنوبی غزہ کے المواصی کیمپ پر گذشتہ روز ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کے باوجود ’ٹھیک‘ ہیں۔

حماس عہدیدار نے اسرائیلی حملے کے وقت اپنے کمانڈر کی کیمپ میں موجودگی کی تصدیق کیے بغیر اے ایف پی کو اتوار کو بتایا: ’کمانڈر محمد الضیف ٹھیک ہیں اور براہ راست حماس کے عسکری ونگ کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘

 المواصی کیمپ پر ہونے والے اس حملے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اموات کی تعداد 90 سے زائد ہوگئی ہے، جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

اسرائیل نے ہفتے (13 جولائی) کو جنوبی غزہ میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ پر بمباری کی تھی، جس کے حوالے سے الجریزہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ’درست انٹیلی جنس‘ کی بنیاد پر ایک ایسے علاقے کو نشانہ بنانے کے لیے کارروائی کی، جہاں ’حماس کے دو سینیئر دہشت گرد‘ اور دیگر جنگجو شہریوں کے درمیان چھپے ہوئے تھے۔

جن شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ان میں حماس کے خان یونس بریگیڈ کے کمانڈر رفاعہ سلامہ اور حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد الضیف شامل تھے۔

الجزیرہ کے مطابق تل ابیب میں وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر میں گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ اس حوالے سے ’بالکل یقین نہیں‘ کہ حماس کے عہدیدار اس حملے میں مارے گئے لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود یہ اسرائیل کے لیے فائدہ مند تھا۔

دوسری جانب غزہ میں حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیا نے دعویٰ کیا کہ نتن یاہو ایک ’جعلی فتح‘ کا اعلان کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے دعوے غلط تھے۔

انہوں نے الجزیرہ عربی کو بتایا: ’محمد الضیف اب آپ کی بات سن رہے ہیں اور آپ کے جھوٹے اور خالی خولی بیانات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔‘

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک 38 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں جب کہ 88 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔

محمد الضیف کون ہیں؟

غزہ کے خان یونس پناہ گزین کیمپ میں 1965 میں پیدا ہونے والے محمد الضیف 1990 میں فلسطینی گروپ حماس میں شامل ہوئے اور 2002 میں محمد الضیف اس کے رہنما بن گئے۔

محمد الضیف کا پیدائشی نام محمد دياب إبراهيم المصری ہے لیکن اسرائیلی فضائی حملوں میں بچ نکلنے کے بعد انہوں نے خانہ بدوش طرز زندگی اختیار کی اور بعد میں الضیف کے نام سے مشہور ہو گئے جس کا عربی میں مطلب ’مہمان‘ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیلی انہیں بھوت یعنی ’دی گھوسٹ‘ بھی کہتے ہیں کیوں کہ ان کی کوئی تازہ تصاویر موجود نہیں ہیں اور ان کے ساتھیوں کے مطابق وہ ایک جگہ پر ایک رات سے زیادہ قیام نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ کبھی کبھار وہ ایک ہی رات میں دو یا تین بار اپنی جگہ تبدیل کر لیتے ہیں۔

اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں 1995 سے اسرائیلی فوج کے انتہائی مطلوب شخص ہونے کے باوجود محمد الضیف گذشتہ دو دہائیوں میں قتل کی سات کوششوں میں محفوظ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے انہیں فلسطین کا سب سے مطلوب شخص اور ’نو زندگیوں والی بلی‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے خطرے میں بچ نکلنے کی بھرپور صلاحیت کے مالک ہیں۔

محمد الضیف خود پر ہونے والے پہلے قاتلانہ حملے میں ایک آنکھ سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ دوسرے قاتلانہ حملے میں انہوں نے بازو کا ایک حصہ کھو دیا تھا۔

محمد الضیف کی اہلیہ، سات ماہ کا شیرخوار بیٹا اور تین سالہ بیٹی 2014 میں اسرائیلی فضائی حملے میں جان سے چلے گئے تھے۔

سات اکتوبر 2023 کو ایک آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی، جس میں اسرائیل کے خلاف ’طوفان الاقصیٰ‘ نامی ایک آپریشن کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اسرائیل نے حماس کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو اسے ’بھاری قیمت‘ چکانا پڑے گی۔

اس آڈیو ریکارڈنگ میں یہ آواز محمد الضیف کی ہی تھی، جنہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا: ’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب بہت ہوا۔ یہ زمین پر آخری قبضہ ختم کرنے والی عظیم جنگ کا دن ہے۔‘

 انہوں نے اپنے پیغام میں پاکستان کا بھی ذکر کرتے ہوئے پاکستانی عوام پر زور دیا تھا کہ وہ ’فلسطینیوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور آپریشن طوفان الاقصیٰ کی حمایت کریں۔‘

حماس کا فائر بندی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان

دوسری جانب حماس نے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں فائر بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات سے بھی خود کو الگ کرلیا ہے۔

حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے اتوار کو اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیلی ’قتل عام‘ اور مذاکرات میں اس کے رویے کی

وجہ سے گروپ غزہ میں فائر بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

سینیئر عہدیدار کے مطابق حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے ثالث کا کردار ادا کرنے والے قطر اور مصر کو بتا دیا ہے کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے تجویز کردہ فائر بندی منصوبے پر ہونے والے مذاکرات ختم کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا