وفاقی حکومت کی جانب سے گذشتہ پانچ مالی سالوں کے دوران پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو 16 ارب چھ کروڑ 81 لاکھ نو ہزار 105 روپے کے اشتہارات دیے۔
سینیٹر سرمد علی نے سینیٹ میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دیے گئے اشتہاروں کی رقم سے متعلق سوال جمع کرایا تھا، جس کا جواب وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے جواب دیا ہے۔
وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کی جانب سے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے 951 اخباروں کو گذشتہ پانچ مالی سالوں کے دوران نو ارب 48 کروڑ 66 لاکھ 82 ہزار 855 روپے اشتہارات کے مد میں دیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی حاصل کردہ دستاویز کے مطابق 951 اخباروں میں سب سے زیادہ رقم جنگ اخبار کو (85 کروڑ 48 لاکھ 95 ہزار 520 روپے) ملی، جب کہ دوسرے نمبر پر ایکسپرس کو 77 کروڑ آٹھ لاکھ 82 ہزار 857 روپے اور تیسرے نمبر پر دنیا اخبار کو 70 کروڑ 52 لاکھ 85 ہزار 768 روپے اشتہارات کی مد میں دیے گئے۔
اخباروں کو اشتہارات دینے کے معیار کے مطابق وفاقی وزارت اطلاعات نے وجہ بتائی کہ ’ایک وسیع البنیاد جامع پالیسی کے تحت قومی اور علاقائی پریس کو اشتہارات جاری کرتے وقت شفاف طریقے سے سپانسر کرنے والی تنظیموں کی مخصوص ضروریات کے تحت اشتہارات کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جاتا ہے۔‘
وزارت اطلاعات کے مطابق سرکولیشن، معیار، پیشکش، قدر، باقاعدگی اور اشاعت کی مقبولیت اشتہارات جاری کرنے کے لیے اہم پیمانے ہیں۔
حکومتی اشتہارات کے حصول کے لیے روزناموں کے لیے سرکولیشن کی کم از کم تعداد تین ہزار، ہفتہ وار کے لیے 750 اور ماہوار اخبار کے لیے تعداد 250 رکھی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی حکومت نے گذشتہ پانچ مالی سالوں کے دوران 91 ٹی وی چینلز کو چھ ارب 58 کروڑ 14 لاکھ 86 ہزار 250 روپے اشتہارات کی مد میں ادا کیے۔
951 اخباروں کو دی جانے والی اشتہارات کی رقم کی تفصیلات
سب سے زیادہ رقم جیو نیوز کو 45 کروڑ 51 لاکھ 52 ہزار 215 روپے، جب کہ دنیا نیوز کو 40 کروڑ 60 لاکھ 85 ہزار 86 روپے اور سما نیوز کو 39 کروڑ 59 لاکھ چار ہزار 85 روپے اشتہارات کی مد میں ملے۔
سربراہ ایم ایم ایف ڈی اسد بیگ کی رائے ہے کہ حکومت کی جانب سے میڈیا کو اشتہارات کی رقم دینا میڈیا اداروں کو حکومت پر منحصر رکھنے کا طریقہ ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اسد بیگ کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت چاہتی ہے کہ میڈیا حکومت پر معاشی انحصار نہ کرے تو وہ گذشتہ 10 روز میں ایسے مواقع فراہم کرسکتی تھی کہ میڈیا معاشی طور پر آزاد ہو سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ڈیجیٹل سوئچ اوور ہوا اور ایسی ہی منتقلی پڑوسی ملک انڈیا میں بھی ہوئی، جس سے وہاں کا میڈیا کافی حد تک معاشی طور پر آزاد ہو گیا ہے۔
اسد بیگ کی رائے ہے کہ اس میں میڈیا کا نہیں بلکہ حکومت کا قصور ہے کہ حکومت چاہتی ہے میڈیا اس پر منحصر رہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جتنے میڈیا کو اشتہارات دیے جائیں گے اتنا ہی میڈیا کو کنٹرول کرنا آسان ہو گا۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات رہنے والے فواد چوہدری کی رائے ہے کہ پاکستان میں نیوز میڈیا کا جو کاروباری ماڈل ہے اس کا انحصار حکومتی اشتہارات پر ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’کیوں کہ ان اداروں کا انحصار حکومتی اشتہارات پر ہوتا ہے اس لیے یہ جلدی سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔‘
ایڈیٹوریل پالیسی کے حوالے سے سباق وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’جو پیسے دیتا ہے وہی ایڈیٹوریل پالیسی بھی کنٹرول کرتا ہے۔‘
فواد چوہدری کا پرنٹ میڈیا کے بارے میں رائے تھی کہ اس کا کاروباری ماڈل حکومتی اشتہارات کے بغیر برقرار ہی نہیں رہ سکتا۔