برطانیہ: لیڈز میں کشیدگی، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں

ویسٹ یارکشائر پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کی پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جائے گا۔‘

18 جولائی، 2024 کی اس تصویر میں برطانیہ کے شہر لیڈز میں فسادات کے دوران ایک شخص کو ایک بس پر حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے(روبن سنگھ انسٹاگرام/روئٹرز)

برطانیہ کے شہر لیڈز کی سڑکوں پر اس وقت ڈرامائی مناظر دیکھنے میں آئے جب جمعرات کی شب مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوئیں اور انہوں نے ایک ڈبل ڈیکر بس کو آگ لگا دی۔

ان واقعات کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین پولیس کی ایک گاڑی کو الٹ کر تباہ کر رہے ہیں اور روکنے والے پولیس افسروں پر اینٹیں پھینک رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی ’سنگین بدنظمی کے واقعے‘ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تصدیق کی جاتی کہ اس مرحلے پر کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔

ویسٹ یارکشائر پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف قانون کی پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

’جو لوگ شاید ان واقعات کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس بدامنی سے دور رہیں جب تک کہ پولیس صورت حال پر قابو نہ پا لے۔‘

پولیس کا ماننا ہے کہ ’مجرمانہ اقلیت نے ان واقعات کی ترغیب دی جس کا مقصد کمیونٹی کے تعلقات میں خلل ڈالنا تھا۔‘

پولیس نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا کی قیاس آرائیوں پر توجہ مت دیں۔

قبل ازیں جمعرات کو پولیس نے کہا کہ ’افسر موقعے پر پہنچے جہاں انہوں نے دیکھا کہ بعض ایجنسی کارکنوں اور بچوں کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے۔‘

لیڈز سٹی کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ٹام ریورڈن نے جمعے کی صبح برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام ’ٹوڈے‘ میں بتایا کہ یہ ایک ’خاندانی واقعہ‘ تھا۔

انہوں نے کہا: ’اس سے پہلے دن کے وقت خاندان میں واقعہ پیش آیا جسے پولیس نے دیکھا اور ہمارے اہلکاروں نے مقامی کمیونٹی کے ساتھ رابطہ کیا جو فکرمند تھی اور ایسا دکھائی دیا کہ یہ صورت حال بعض لوگوں کے گروپس کے لیے باعث تشویش تھی۔‘

میں تو کہوں گا کہ ’میں کسی تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ یہ ایک خاندانی واقعہ تھا اور لیڈز میں ہمیشہ کی طرح ہمارے پاس شاندار سروسز موجود ہیں یہ ایسا واقعہ تھا جس کی شاید غلط تشریح کی گئی۔‘

واقعات سامنے آنے کے بعد مقامی کونسلر محسن علی نے صورت حال پر بات کی اور انہوں نے اسے ’حقائق کو توڑ مروڑ‘ کر پیش کرنا قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’سماجی خدمات (کے اداروں) کی طرف سے کارروائی کی گئی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں لوگ جمع ہو گئے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ شروع میں صورت حال پر قابو پا لیا گیا لیکن شام کے وقت تشدد میں شدت آ گئی

انہوں نے مزید کہا: ’حالات پہلے سے کشیدہ تھے جن کا نتیجہ ظاہر ہوا۔‘

تباہ ہونے والی بسوں کے مالک کمپنی ’فرسٹ بس‘ نے اپنی گاڑیوں کو ہیر ہلز کے علاقے میں چلانا بند کر دیا ہے۔

کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ڈپو کی ٹیم اپنے ڈرائیوروں اور مسافروں کی مدد لیے فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔

’ہم تصدیق کر سکتے ہیں کہ دونوں ڈرائیور محفوظ ہیں اور ہمارے پاس مسافروں کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔

’ہماری ایک گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہے لیکن وہ خالی تھی کیونکہ مسافروں کو ڈرائیور کے ساتھ دوسری بس میں منتقل کر دیا گیا تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی چھان بین اب بھی جاری ہے اور کسی بھی معلومات رکھنے والے شخص کو ہدایت کی جاتی کہ وہ اس خصوصی طور پر متعارف کروائی جانے والی آن لائن سروس کا استعمال کرتے ہوئے آگے آئیں جس پر افسر کام کر رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ