بنوں میں دھرنا: وزیراعلیٰ کے پی کی مشران سے آج ملاقات متوقع

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بنوں واقعے پر علاقے کے مشران نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو پیر کو ان سے ملاقات کرے گی۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ بنوں واقعے پر علاقے کے مشران نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو پیر کو ان سے ملاقات کرے گی۔

وزیر اعلیٰ کے بیان میں کہا گیا کہ بنوں واقعے کے بعد انتظامیہ کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کرنے پر وہ بنوں کے مشیران، پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ دران اور دیگر لوگوں کے مشکور ہیں۔

انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ ’ہماری حکومت بننے کے بعد پہلی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ کچھ مسلح لوگ سرکاری اہلکار بن کر اور خود کو کسی سرکاری ادارے سے منسلک کر کے گھوم رہے ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، اس پر صوبے کی حکومت، پولیس اور عوام کے شدید  تحفظات ہیں۔‘

علی امین گنڈاپور کے مطابق ’ہمارے یہ تحفظات کئی سالوں سے ہیں اور میں نے نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس میں بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی۔‘

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مطابق انہوں نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ایسے مسلح عناصر جہاں کہیں پر بھی پائے جائیں انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے اور جہاں بھی ان کے ٹھکانے ہیں وہ خالی کروائے۔

’دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی لہٰذا صوبے کے عوام سے میری اپیل ہے کہ وہ بھی ایسے عناصر کی نشاندہی کریں۔‘

بنوں میں دھرنا جاری

بنوں میں فوجی چھاؤنی پر ہونے والے حملے اور عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ کے خلاف امن پاسون کی کال پر ہفتے کو شروع ہونے والا دھرنا آج (اتوار کو) بھی جاری رہا۔

صحافی روفان خان کے مطابق بنوں میں امن پاسون کا دھرنا بنوں چھاؤنی کے مرکزی راستے کے سامنے پولیس لائنز چوک میں ہو رہا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ طلبہ، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے نمائندوں اور رہنماؤں نے دھرنے کے مقام پر احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین اپنی جماعت کے رہنماؤں کے ہمراہ کیمپ آئے، جب کہ  لکی مروت کے مشران نے بھی خصوصی شرکت کی۔

سکیورٹی صورت حال کے پیش نظر خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے دوسرے اضلاع سے پولیس کی نفری بنوں طلب کر رکھی ہے، جب کہ بنوں چھاؤنی کو جانے والے راستوں پر کنٹینرز رکھ کر راستے بند کر دیے گئے ہیں۔

دھرنے کے دوران بنوں شہر اور ارد گرد کے علاقوں میں بازار تو کھلے ہیں لیکن رش معمول سے بہت کم ہے۔

مذاکراتی کمیٹی 

دھرنے کے شرکا نے متفقہ طور پر ایک 30 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے پاس حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو گا۔

کمیٹی میں بنوں سے رکن قومی اسمبلی، چاراراکین صوبائی اسمبلی، دو چار سابق ایم پی ایز، سمیت چیمبر اف کامرس، علما، وکلا، صحافیوں، تاجروں اور مختلف علاقوں سے نمائندے شامل ہیں۔

دوسری طرف ضلعی انتظامیہ نے احتجاجی مہم کے منتظمین کے ساتھ رابطے تیز کر دیے ہیں۔ 

 

خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ہفتے کو بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بنوں واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔

اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ’یہ کمیشن شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے گا۔ اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا اور ذمہ داران کے کردار کا تعین کر کے قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر عوام سے انتہائی احتیاط سے کام لینے کی درخواست ہے۔ پاکستان اور عوام دشمن عناصر حالات خراب کرنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔

’ملک دشمن عناصر کو امن خراب کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے،کمیشن کی رپورٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی ہو جائے گی۔ کمیشن کی رپورٹ سے قبل افواہوں اور بلا تصدیق الزامات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعے کو مظاہرے میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص کی جان چلی گئی تھی جب کہ کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔ 

افغانستان سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بنوں میں نکالی گئی اس ریلی میں 10 ہزار سے زیادہ افراد اس نئے فوجی آپریشن کے حوالے سے سفید جھنڈے لہراتے ہوئے امن کا مطالبہ کر رہے تھے۔

عینی شاہدین اور حکام نے بتایا کہ جمعے کو ہونے والا احتجاج اس وقت پرتشدد شکل اختیار کر گیا جب ہجوم ایک فوجی تنصیب کی دیواروں کے قریب پہنچ گیا اور فائرنگ شروع ہو گئی۔

پشاور میں موجود ایک انٹیلی جنس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا تھا: ’انہوں (مظاہرین) نے فوج کے خلاف نعرے بازی کی اور کچھ لوگوں نے عمارت کی دیوار پر پتھراؤ شروع کر دیا، جس پر فوج کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی۔‘

مظاہرین سے خطاب کرنے والے خیبر پختونخوا کے وزیر صحت پختون یار کے مطابق مظاہرے میں شامل کم از کم ایک شخص کی جان گئی۔

انہوں نے فوج پر مظاہرین پر گولیاں چلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا: ’مظاہرے کے دوران مجھ پر اور میرے قریب کھڑے لوگوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ یہ صرف ہوائی فائرنگ نہیں تھی۔ اس کا مقصد ہمیں مارنا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان