بنوں حملے میں آٹھ پاکستانی فوجیوں کی موت، امریکہ کا افسوس

پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے امریکہ اور پاکستان نے ماضی میں بھی کام کیا ہے اور اب بھی مل کر کام کرنے کے طریقوں پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے بنوں حملے میں آٹھ پاکستانی فوجیوں کی اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے منگل کو کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لیے امریکہ اور پاکستان نے ماضی میں مل کر کام کیا ہے اور اس حوالے سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

منگل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائیڈر سے سوال کیا گیا کہ ’گذشتہ روز ایک دہشت گرد حملے میں آٹھ پاکستانی فوجی جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک دہشت گرد تنظیم نے قبول کی تھی۔ کیا آپ اس بارے میں کوئی تبصرہ، کوئی تعزیت کریں گے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس پر جنرل پیٹ رائیڈر نے جواب دیا: ’یقیناً ہماری دعائیں جان سے جانے والے فوجیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ میں جانتا ہوں اور جیسا کہ ہم اس سے قبل بھی بات کر چکے ہیں کہ جب خطے میں دہشت گردوں سے لڑنے کی بات آتی ہے تو پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے، لہٰذا یہ (فوجیوں کی اموات کا) سن کر یقیناً دکھ ہوا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’آپ جانتے ہیں کہ جب انسداد دہشت گردی کی بات آتی ہے تو امریکہ اور پاکستان نے ماضی میں مل کر کام کیا ہے اور ہم مل کر کام کرنے کے طریقوں پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے گذشتہ روز ایک بیان میں بتایا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں کینٹ کی حدود میں 15 جولائی کی صبح سے جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے 10 شدت پسند مارے گئے جبکہ آپریشن میں آٹھ سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے۔

آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کی یہ کارروائی حافظ گل بہادر گروپ نے کی ہے، جو افغانستان سے کام کرتا ہے اور ماضی میں بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال سے انکار کریں اور ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کریں۔‘

پاکستانی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے مقاصد میں ’دہشت گردوں کی باقیات کا خاتمہ، مجرموں اور دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ (خاص طور پر کراچی اور کچے کے علاقوں میں) اور ملک سے پرتشدد انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا‘ شامل ہے۔

اس حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ پاکستان نے امریکہ سے مزید ہتھیاروں کی فراہمی کی درخواست کی ہے، کیونکہ بقول حکومت، شدت پسند ملک میں وہی اسلحہ اور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں، جو امریکی قیادت میں نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں چھوڑ گئیں۔

اسی تناظر میں پینٹاگون ترجمان سے پریس بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ ’پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج امریکہ سے مدد مانگ رہی ہے۔ پاکستانی فوج اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جدید امریکی ہتھیاروں کا مطالبہ کر رہی ہے کیونکہ ان کے مطابق افغانستان میں موجود تمام دہشت گرد امریکی افواج کے چھوڑے ہوئے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔  امریکی افواج نے یہ ہتھیار افغان فورسز کے لیے چھوڑے، لیکن کسی نہ کسی طرح وہ (دہشت گردوں) کے ہاتھوں میں ہیں، تو کیا امریکہ پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر غور کر رہا ہے؟‘

جس پر میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے جواب دیا: ’میں فی الحال کسی چیز کے بارے میں اعلان نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ سکیورٹی تعاون کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں، اس لیے مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اور امریکہ اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتا ہے، اس حوالے سے ان میکانزم کے ذریعے یہ بات چیت ہو رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان