سپریم کورٹ آف پاکستان اور صوبائی ہائی کورٹس کی موسم گرما کی چھٹیوں کے نوٹیفکیشن جاری ہو چکے ہیں، جس کے مطابق عدالت عظمیٰ میں تعطیلات 15 جولائی سے شروع ہوئیں۔
سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق بڑی تعداد میں زیر التوا مقدمات موجودگی کے باعث ایک ماہ کی تعطیلات کم کی گئی ہیں۔
ہر سال سپریم کورٹ کی موسم گرما کی چھٹیاں 15 جون سے شروع ہوتی ہیں۔ تاہم اس مرتبہ ان تعطیلات میں ایک مہینے کی کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس سال چھٹیاں 15 جولائی سے 15 ستمبر تک ہوں گی۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں چھ ہفتے کی ہوں گی، جو 22 جولائی سے شروع ہو چکی ہیں۔
بیشتر ججز چھٹیوں پر جا چکے ہیں اور صرف پانچ جج فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں بھی 20 جولائی سے 31 اگست تک گرمیوں کی چھٹیاں رہیں گی، جس دوران ڈیوٹیز پر موجود چند جج فوری نوعیت کے مقدمات کی سماعت کریں گے۔
سپریم کورٹ میں دائر مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت بھی چھٹیوں کے بعد ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کرنے کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اس معاملہ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا اختلافی نوٹ بھی جاری ہوا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ اقبال کے بقول، ’تمام سرکاری محکموں میں چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے ججز کے لیے بھی گرمیوں کی تعطیلات ضروری ہیں۔ کیونکہ وہ کافی دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی سخت ہونے کی وجہ سے انہیں بھی موسم گرما میں تفریح کا موقع ملنا ضروری ہے۔‘
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کے مطابق: ’انگریز دور میں گورے ججز اس خطے میں گرمی کی وجہ سے چھٹیاں برطانیہ گزارنے جاتے تھے۔ اس روایت پر آج بھی عمل ہوتا ہے۔ جج صاحبان کو گرمیوں میں چھٹی ضررو ملنا چاہیے لیکن پورا سال کیسوں کے التوا میں کمی ناگزیر ہو چکی ہے۔‘
سابق سینیئر ریڈر ہائی کورٹ عرفان ایزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’جب انگریز ججز کو گرمیوں کی چھٹیاں دی جاتی تھیں تب عدالتوں میں پنکھے بھی ہاتھ والے ہوتے تھے۔ لیکن اب عدالتوں میں سینٹرل اے سی سسٹم سے دسمبر کا موسم بنا رہتا ہے۔ اب ان چھٹیوں کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ججز کی چھٹیاں اور مقدمات کا التوا
سپریم کورٹ نے 2019 میں ججز کی گرمیوں کی چھٹیاں منسوخ کر دی تھیں۔ اس حوالے سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ رواں سال موسم گرما میں بھی ’انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کو زیر التوا مقدمات کا ادراک ہے اس لیے پرنسپل سیٹ سمیت تمام برانچ رجسٹریوں میں گرمیوں کے دوران کام جاری رہے گا تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔‘
وزیردفاع خواجہ آصف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نظامِ انصاف کی فراہمی میں دنیا کے 140 ملکوں میں پاکستان کا درجہ 129 واں ہے۔ ہمارے ملک میں فوری انصاف میں کئی روکاوٹیں ہیں جن میں ایک زیر التوا کیسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہے۔‘
رواں سال مارچ میں پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں 18 لاکھ 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں جبکہ ہائی کورٹس گرمیوں میں دو ماہ اور ضلعی عدالتیں گرمیوں میں ایک ماہ چھٹی پر چلی جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی زیر التوا مقدمات سے متعلق جاری حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ، شرعی عدالت، تمام ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 22 لاکھ 60 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2023کے آخری چھ ماہ کے دوران زیر التوا مقدمات میں 3.9 فیصد اضافہ ہوا، کل زیر التوا مقدمات میں سے 82 فیصد ضلعی عدالتوں میں جبکہ 18 فیصد اعلیٰ عدلیہ میں ہیں۔
جولائی سے دسمبر 2023 کے دوران 23 لاکھ 80 ہزار نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔ اس عرصہ کے دوران 23 لاکھ کیسز نمٹانے گئے۔ صوبائی ہائی کورٹس میں زیرالتوا مقدمات میں سے 81 فیصد دیوانی مقدمات ہیں۔
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ ’ججز صاحبان جو فرائض انجام دیتے ہیں ان میں سیاسی اور ریاستی نوعیت کے مقدمات کی سماعت بھی شامل ہوتی ہے۔ لہذا انہیں قانون انصاف کے مطابق فیصلے کرنے پڑتے ہیں جس پر بہت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ججز کی چھٹیاں تو ٹھیک ہیں مگر مسئلہ زیر التوا کیسوں کا ہے۔ ایک تو ججز کی تعداد آبادی کے لحاظ سے کافی کم ہے اس کا دباو بھی ججز پر پڑتا ہے۔ ججز صاحبان چھٹیاں ضرور کریں مگر پورا سال کیسوں کو نمٹانے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔‘
جسٹس منیب اختر کے مطابق ’ایک بار عدالتی چھٹیوں کا اعلان ہو جائے تو چھٹیاں منسوخ کرنے کی رولز میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت معاملہ جلدی کا ہو تو نظرثاتی 15 روز میں سماعت کیلئے مقرر ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ 15 دنوں میں نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ ہوئی تو کیس ہی غیر مؤثر ہو جائے گا۔ اگر سپریم کورٹ نے 15 روز میں نظرثانی سماعت کے لیے مقرر نہ کی تو اکثریتی فیصلے میں دیے گئے 15 دنوں کی حد گزر جائے گی اور کیس ہی غیر مؤثر ہو جائے گا۔‘
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل غلام محمد چوہدری نے کچھ سال پہلے ججز کی ان چھٹیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں ججز کو ملنے والی گرمیوں کی چھٹیوں کو غیر قانونی کہا گیا۔ لیکن درخواست کو تکنیکی بنیادوں پر یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ یہ مفادِ عامہ کا مقدمہ نہیں ہے۔