کراچی: بجلی، پانی اور گیس کی عدم دستیابی، شہریوں کی بڑی مشکل

شدید گرمی کی لپیٹ میں آنے والا کراچی بنیادی مسائل کے گھیرے میں ہے۔ بجلی،گیس اور آب یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جن سے شہری محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

چار جولائی 2024 کو کراچی میں بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرے کے دوران مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں (رضوان تبسم/ اے ایف پی)

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ نیا نہیں، جو اب سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں 12 تو کہیں 18 گھنٹے کے لیے بجلی بند کر دی جاتی ہے اور صوبائی اسمبلی  سے سڑکوں تک اس مسئلہ کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف لیاقت آباد، شفیق موڑ، نشتررو ڈ، رام سوامی، اللہ والا ٹاؤن، کورنگی، جہانگیر روڈ، ملیر، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن سمیت دوسرے علاقوں میں شہری سڑکوں پر نکل آئے، احتجاج کیا، دھرنا دیا، شاہراہو ں کو بند کیا، ٹائر جلائے اور حکومت مخالف نعرے بھی لگائے۔

عوام دن رات بجلی کی بندش سے سیخ پا دکھائی دیے۔ تاہم پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل برسائے اور ہوائی فائرنگ کی۔ کئی ایک مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

بجلی کی بندش کے خلاف عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتیں سڑکوں اور صوبائی ایوان تک آواز اٹھا رہی ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے الیکٹرک کے خلاف ہم آواز ہیں۔

جماعت اسلامی نے شہر کی مختلف شاہراہوں پر کے الیکٹرک انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا۔

27 جون کو جماعت اسلامی کرا چی کے امیر منعم خان ظفر نے سندھ ہائی کورٹ میں روشنیوں کے شہر میں لوڈشیڈنگ کے خلاف درخواست دائر کی، جس میں کے الیکٹرک کی جانب سے 71 فیصد فیڈرز کو لوڈ شیڈنگ فری قرار دیت جانے کو غلط قرار دیا گیا ہے۔

درخواست گزار کے مطابق کراچی میں 16 گھنٹے کی روزانہ اوسط لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، جب کہ اب رات میں بھی دو سے چار گھنٹے لوڈشیڈنگ شروع کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب 27 جون کو ایم کیو ایم پاکستان کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے عوام کی آواز بنتے ہوئے شدید گرمی کے باعث کراچی میں ہونے والی اموات کا ذکر صوبائی اسمبلی میں اٹھاتے ہوئے الزام کے الیکٹرک انتظامیہ  پر عائد کیا۔ انہوں نے کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے خلاف ایف آئی آر کاٹے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ 

اورنگی ٹاؤن کے ایک صارف اعظم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہر مہینے 20 ہزار روپے بجلی کا بل آتا ہے، جب کہ گھر میں دو پنکھے چلتے ہیں اور الیکٹرانک آئٹمز میں صرف ریفریجیریٹر کا استعمال ہوتا ہے، جسے کے الیکٹرک کی ہدایت کے مطابق شام کے اوقات میں بند کر دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اتنی احتیاط کے ساتھ بجلی استعمال کرنے کے باوجود بلوں کی زیادتی اور اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں۔‘
کے الیکٹرک کا مؤقف
کے الیکٹرک ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ کے  الیکٹرک کے دائرہ کار کا 70 فیصد علاقہ بدستور لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہے۔

’ہم پی ایم ٹیز پر نصب سمارٹ میٹرز کے  ذریعے اپنے نیٹ ورک پر کڑی نظر رکھتے ہیں، جس سے ہمیں کسی بھی علاقے میں بجلی کی چوری اور بلوں کی وصولی کی صورت حال سے آگاہی ملتی ہے۔ صرف زیادہ نقصان والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ 10 گھنٹے ہے۔

’تاہم اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور ادائیگیوں کی شرح پر بجلی کا دورانیہ بھی طے کیا جاتا ہے۔‘

ماہر معاشیات و توانائی خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بجلی کی پیداوار اچھی خاصی ہے، لیکن مسئلہ بجلی  پہنچانے کی استعداد کا ہے جو بہتر نہیں ہے۔ ترسیل و تقسیم کا نظام سڑ چکا ہے۔ اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں انہوں نے بلوں میں اضافے کی روک تھام پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔‘

آبی قلت

پاکستان کا سب سے گنجان آباد شہر کراچی پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

شہریوں کو خرید کر یا بورنگ سے حاصل ہونے والا پانی استعمال کرتے ہیں۔

پانی سے جڑے مسائل پر رپورٹ کرنے والے صحافی مونس احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’کراچی میں روانہ 1200 ملین گیلن پانی کی طلب ہے اور دستیابی آدھی یعنی 600 ملین گیلن ہے۔  

کراچی کو دو مقامات یعنی کینجھر جھیل دھابیجی جو سب سے بڑا ذریعہ ہے اور حب ڈیم سے پانی ملتا ہے۔ 600 ملین گیلن پانی کے شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جو تنازعات کا شکار ہیں اور ان کی تکمیل کے امکانات بہت کم ہیں۔

سندھ حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ حب کینال ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اسکے ساتھ ایک کینال بنائی جائے گی جہاں سے کراچی کو پانی مل سکے گا۔

لیاری، اورنگی ٹاؤن، شاہ فیصل کالونی، یہاں تک کے پوش علاقوں میں بھی پانی کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جا سکی۔

ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صوبائی حکومت 100 ایم جی ڈی پانی فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کر رہی ہے، جس پر 12.73 ارب روپے خرچ ہوں گے اور اس پراجیکٹ سے ضلع وسطی اور کیماڑی کو پانی مہیا کیا جائے گا، جبکہ کینال منصوبے جو ایک سال میں مکمل ہو جائے گا۔  

سلمان مراد کا کہنا تھا کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ے باعث بھی کراچی کو پانی کی عدم فراہمی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گیس لوڈ شیڈنگ
شہر قائد میں سردیوں کے دوران گیس کی لوڈشیڈنگ تو معمول تھا تاہم اس سال گرمیوں میں بھی گیس کی عدم دستیابی عوام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے، جب کہ کچھ علاقو ں میں گذشتہ دو ماہ سے گیس بالکل بھی نہیں اور شہری سلینڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

کراچی کے شہری فصیح احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گیس کی بندش پہلے نہیں تھی لیکن شروعات لوڈشیڈنگ سے ہوئی اب ان کے علاقے کے کچھ حصو ں میں لائن کی گیس نہیں ہے۔ سلینڈر پر ہی سارے کام کیے جا رہے ہیں جبکہ بل معمول کے مطابق آرہا ہے جو حیران کن ہے۔‘

اسی حوالے سے ماہر توانائی ابو بکر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’قدرتی گیس کے ذخیرے کم ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں گھریلو صارفین کو بہت سستی گیس دی جا رہی ہے۔

’ملک بھر میں تقریباً 50 سے 60 ایم ایم سی ایف گیس کی شارٹیج ہے، جو رات میں بند کر کے تھوڑا سا بیلنس کرتے ہیں۔اب گھروں میں ایل پی جی استعمال ہو رہی ہے، جو گیس کے مقابلے میں چار پانچ گناہ مہنگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے بہتر طریقہ گیس کی قیمتوں میں کمی کرنا ہے۔

سوئی سدرن کمپنی کے ترجمان سلمان صدیقی نے  انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سردیوں میں گیس کی طلب زیادہ کے باعث لوڈ شیڈنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ زیر زمین کنوؤں سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس کے ذخائر میں سالانہ 10 فیصد کمی ہوتی ہے، جب کہ طلب میں ہر سال بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

بقول سلمان صدیقی کے: ’گیس کی فراہمی میں اس نمایاں کمی کی وجہ سے سوئی سدرن کے زیر زمین ڈسٹریبیوشن سسٹم پر شدید دباؤ ہوتا ہے اور گیس کے دباؤ پریشر کو بحال رکھنے کے لیے رات کے وقت لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان