ڈیموکریٹک پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے پیر کو اپنی انتخابی مہم کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ پر ذاتی حملے کے ساتھ کیا اور صدر جو بائیڈن کی اچانک دستبرداری کے باوجود نومبر میں صدارتی انتخابات جیتنے کا عزم کیا۔
صدر جو بائیڈن کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی خواہشمند کملا ہیرس نے الیکشن میں ڈیموکریٹس کی جیت کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کملا ہیرس نے مہم کے کارکنوں سے ولیمنگٹن کے ہیڈ کوارٹر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نومبر میں جیتنے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ گذشتہ چند دنوں میں ’رولر کوسٹر‘ جیسی صورت حال کے بعد پارٹی کارکنوں سے ذاتی طور پر خطاب کرنے کے لیے ولیمنگٹن پہنچی ہیں۔
ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کملا ہیریس نے کیلیفورنیا کے چیف پراسیکیوٹر کے طور پر اپنے ماضی کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ’ہر قسم کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا سب سے واسطہ پڑا ہے جن میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے شکاری، دھوکے باز جنہوں نے صارفین کو دھوکا دیا اور وہ جنہوں نے اپنے فائدے کے لیے قوانین کو توڑا۔ تو میں جانتی ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کس قسم کے آدمی ہیں۔‘
ہیریس نے اسقاط حمل قوانین میں اصلاحات کا بھی وعدہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کملا ہیرس کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جن کو عدالت سے سزا ہوئی۔
بائیڈن کی جگہ لینے کے لیے انڈین نژاد کملا ہیرس پہلا انتخاب ہیں جن کی حمایت کا اعلان بائیڈن نے اتوار کو اپنی دستبرداری کے بعد کیا تھا۔
اگر وہ پانچ نومبر کو منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ پہلی خاتون اور پہلی سیاہ فام خاتون امریکی صدر کے طور پر نئی تاریخ رقم کر دیں گی۔
دوسری طرف انتخابات سے متعلق مہم کے ذرائع نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ نائب صدر کملا ہیرس نے پیر کی رات ڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی کے لیے درکار مندوبین کی تعداد کو پیچھے چھوڑتے ہوئے زیادہ کی حمایت حاصل کر لی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہیرس کے پاس 2214 مندوبین تھے، جو پہلے بیلٹ پر نامزدگی حاصل کرنے کے لیے درکار سادہ اکثریت سے بھی زیادہ تھے۔‘
اے پی نے کہا کہ سروے غیر سرکاری ہے، کیونکہ جب پارٹی باضابطہ طور پر اپنے امیدوار کا انتخاب کرتی ہے تو ڈیموکریٹک مندوبین اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔