بائیڈن کے دستبردار ہونے کے بعد کملا ہیرس صدر بننے کے لیے پرعزم

جو بائیڈن کی جانب سے آخری لمحات میں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد نائب صدر کملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی ممکنہ مضبوط امیدوار بن کر ابھری ہیں۔

امریکی نائب صدر کملا ہیرس نارتھ کیرولائنا میں 18 جولائی 2024 کو ویسٹوور ہائی سکول میں انتخابی مہم کے دوران خطاب کر رہی ہیں (اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ پانچ نومبر کے انتخابات سے صرف 100 دن پہلے سامنے آیا ہے جس کے بعد نائب صدر کملا ہیرس نے امیدوار بننے اور انتخاب جیتنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فطری طور پر بائیڈن کی جگہ لینے کے لیے نائب صدر کملا ہیرس پہلا انتخاب ہوں گی جن کی حمایت کا اعلان بائیڈن نے اتوار کو اپنی دستبرداری کے بعد کیا تھا۔

کملا ہیرس نے بائیڈن کے اعلان کے بعد ایک بیان میں کہا: ’اس بے لوث اور حب الوطنی پر مبنی عمل کے ساتھ  صدر جو بائیڈن وہ کر رہے ہیں جو انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے یعنی امریکی عوام اور ہمارے ملک کو ہر چیز سے بالاتر رکھنا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے صدر کی توثیق کا اعزاز حاصل ہے اور میرا ارادہ یہ نامزدگی حاصل کرنا اور اسے جیتنا ہے۔ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی اور اپنی قوم کو متحد کرنے کے لیے اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کروں گی۔‘

سابق صدر بل کلنٹن اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی کملا ہیریس کی حمایت کی ہے۔

پارٹی چیئرمین جمائم ہیریسن نے ایک بیان میں کہا کہ آنے والے دنوں میں، بائیڈن کے ساتھی ڈیموکریٹس ’یونائیٹڈ ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے طور پر ایک ایسے امیدوار کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے ایک شفاف اور منظم عمل کا آغاز کریں گے جو نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکے۔‘

یہاں 81 سالہ بائیڈن کی جگہ نئی نامزدگی کے لیے آئندہ کے عمل اور ممکنہ امیدوار پر نظر ڈالی جا رہی ہے۔

رپبلکنز کا رد عمل

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کملا ہیرس کی ممکنہ نامزدگی کے بعد رپبلکن صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ ’سوئنگ ووٹرز‘ کو یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ ان کی ممکنہ نئی حریف امیگریشن اور ضروریات زندگی کی لاگت پر کتنی غیر سنجیدہ رہی ہیں۔

اتوار کو بائیڈن کے دستبرداری کے اعلان کے فوراً بعد ٹرمپ نے سی این این کو بتایا کہ ’کملا ہیرس کو جو بائیڈن کے مقابلے میں ہرانا زیادہ آسان ہوگا۔‘

ٹرمپ کی انتخابی مہم نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بائیڈن کی امیگریشن پالیسی پر کملا ہیرس کو آڑے ہاتھوں لیں گے جس کے بارے میں رپبلکن کہتے ہیں کہ بائنڈن انتظامیہ میکسیکو سے غیر قانونی طور پر جنوبی سرحد عبور کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی ذمہ دار ہے۔

رپبلکنز کا کملا ہیرس پر دوسرا حملہ معیشت کے حوالے سے ہو گا۔ رائے عامہ کے جائزوں میں مسلسل دکھایا گیا ہے کہ امریکی خوراک اور ایندھن کی زیادہ قیمتوں کے ساتھ ساتھ سود کی شرحوں سے ناخوش ہیں جس کی وجہ سے گھر خریدنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

افراتفری میں ہونے والا کنونشن

ایک باضابطہ صدارتی امیدوار کو نامزد کرنے کے لیے تمام 50 ریاستوں، امریکی دارالحکومت اور وفاقی اکائیوں سے منتخب مندوبین اپنی پارٹی کے نامزد کنونشن میں شرکت کرتے ہیں تاکہ باضابطہ طور پر امیدوار کا انتخاب کیا جا سکے۔

پچھلے کنونشن میں بائیڈن نے بھاری اکثریت سے پرائمری ووٹ حاصل کیے تھے۔ پارٹی کے  19 اگست کو شکاگو میں شروع ہونے والے کنونشن میں شریک تقریباً 3,900 پارٹی مندوبین نے ان کی حمایت کا اعائدہ کیا تھا۔

اوہائیو سے متعلق ممکنہ قانونی مسائل کی وجہ سے پارٹی کے رہنماؤں نے پہلے کنونشن سے قبل ایک ورچوئل رول کال کے ذریعے بائیڈن کو باضابطہ طور پر نامزد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ابتدائی کنونشن اب کب ہوگا لیکن ان کے متبادل کا نام کی منظوری بالآخر مندوبین کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔

جمائم ہیریسن نے کہا: ’ہمارے مندوبین نئے امیدوار کے انتخاب میں اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار ہیں۔ اس عمل کو پارٹی کے قائم کردہ اصولوں اور طریقہ کار کے تحت چلایا جائے گا۔‘

آخری لمحات میں کی گئی یہ تبدیلی امریکی سیاست کو پرانے دنوں میں واپس لا سکتی ہے جب پارٹی کے مندوبین ووٹنگ کے لامتناہی راؤنڈز میں ڈیل میکنگ کے ذریعے کسی امیدوار کو منتخب کرنے کے لیے رسہ کشی جیسے کھیل کا حصہ بنتے تھے۔

31 مارچ 1968 کو اس وقت کے صدر لنڈن جانسن نے ویتنام جنگ کے وسط میں یہ چونکا دینے والا اعلان کیا کہ وہ دوبارہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔

نیا امیدوار کون ہو سکتا ہے؟

27 جون کو ہونے والی بحث میں ٹرمپ کے خلاف بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی کے فوراً بعد ان کی عمر اور انتخابات میں ریپبلکن کو شکست دینے کی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے عوامی طور پر نئے امیدوار لانے پر اظہار خیال کیا۔

ماہرین کے مطابق بائیڈن کی جگہ لینے کے لیے نائب صدر کملا ہیرس پہلا انتخاب ہوں گی جن کی بائیڈن نے اتوار کو اپنی دستبرداری کے بعد حمایت کا اعلان بھی کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسری پارٹی کے امکانات؟ 

بائیڈن کے دستبردار ہونے کے بعد کیا تیسری پارٹی کا کوئی مضبوط امیدوار بھی ابھر سکتا ہے؟ ابھی تک ملکی تاریخ میں کوئی بھی آزاد امیدوار امریکہ کے غالب دو جماعتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں رہا۔

1992 میں ٹیکسس کے ارب پتی راس پیروٹ ایک آزاد صدارتی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑتے ہوئے تقریباً 19 فیصد مقبول ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

لیکن ملک کے انتخابی نظام کی وجہ سے انہوں نے الیکٹورل کالج کا ایک بھی ووٹ حاصل نہیں کیا جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ الیکٹورل کالج کے 538 ارکان ہی بالآخر فاتح کا فیصلہ کرتے ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ