امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کو تعلقات میں مسلسل چیلنجز اور مواقعوں کا سامنا ہے۔ صدر بائیڈن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 101 ملین ڈالر کے ’پاکستان بجٹ‘ کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے منگل کو امریکی ایوان نمائندگان کی سب کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں ’اس رقم کو جمہوریت اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے، دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی سے لڑنے، پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے، چین پر مزید انحصار کو روکنے کے لیے معاشی اصلاحات اور قرضوں کے انتظام میں مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں، ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی اہم جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری نے کہا کہ ’ہم جنوبی اور وسطی ایشیا میں ایک اہم جدو جہد کر رہے ہیں۔ یہ جدو جہد چین کا مقابلہ کرنے، روسیوں اور چینیوں کی ڈس انفارمیشن کا مقابلہ کرنے اور دہشتگرد گروپوں کو ہمارے تحفظ کے لیے خطرہ بننے سے روکنے کے لیے ہے اور اس کام کے لیے جو وسائل کانگریس نے فراہم کیے ہم اس کے شکر گزار ہیں۔‘
ڈونلڈ لو نے کہا کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ وہ بجٹ کی پابندیوں والی دنیا میں رہ رہے ہیں۔
’صدر جو بائیڈن نے اس خطے کے لیے مالی 2025 کے لیے جس بجٹ کی درخواست کی ہے اس کا حجم ایک عشاریہ صفر ایک ارب ڈالرز برائے غیر ملکی امداد ہے جو کہ دراصل پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 1.9 فیصد کی کمی ہے۔‘
امریکی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے کہا کہ ’ہماری پہلی ترجیح انڈو پیسیفک میں شراکت داری بنانا ہے۔ چین بحر ہند میں فوجی اور تجارتی قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایک مضبوط چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری سب سے مؤثر حکمت عملی یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہمارے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ بہتر ہے۔ بہتر ترقی کے مواقع، بہتر تجارتی سودے، اور ان کے سکیورٹی چیلنجز کے لیے بہتر حل ہیں۔‘
انہوں نے امریکی ایوان نمائندہ گان کی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ ’ہماری دوسری ترجیح نیویارک میں گذشتہ برس C5+1 سربراہی اجلاس میں وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ صدر کی ملاقات کی بنیاد آگے بڑھنا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کے معاشی اثرات اور چین کے غیر پائیدار قرضوں کے ذریعے عائد قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
’امریکی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے اور وسط ایشیائی ممالک میں اقتصادی مواقعوں کو بڑھانے سے امریکہ میں بے قاعدہ نقل مکانی کو روکنے میں مدد ملے گی۔‘
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے ڈونلڈ لو نے کہا کہ ’افغانستان میں، ہم خواتین، لڑکیوں اور اقلیتی گروہوں کی صورت حال کے بارے میں اپنی گہری تشویش پر زور دیتے رہتے ہیں۔ ہر ملاقات میں ہم طالبان پر واضح کرتے ہیں کہ جب تک تمام افغانوں کے حقوق کا احترام نہیں کیا جائے گا تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری نے بتایا کہ امریکی حکومت طالبان سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ وہ تمام امریکی شہریوں کو رہا کریں جو اس وقت طالبان کی تحویل میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اپنے انڈو پیسیفک کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے، ہم اضافی وسائل کا رخ جنوبی ایشیا کی طرف کر رہے ہیں۔ صدر نے بجٹ میں 585.7 ملین ڈالر کی درخواست کی ہے گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 4.8 فیصد اضافہ ہے۔ یہ فنڈز انڈو پیسفک میں شراکت دار ممالک کو میری ٹائم سکیورٹی، ڈیزاسٹر ریلیف اور معیاری انفراسٹرکچر سرمایہ کاری فراہم کرنے کے لیے انڈو پیسفک کواڈ میں امریکہ کو تقویت دیں گے۔
’یہ فنڈز مالیاتی شفافیت اور قرض کے انتظام کو بہتر بنائیں گے تاکہ بحر ہند کے ممالک کو چین کے زبردستی قرضوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری نے بتایا کہ ’وسطی ایشیا کے ممالک پر سے ہم روس اور چین کے شدید دباؤ کو کم کرنے کے لیے اور ان ممالک کی لچک کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس کے لیے بجٹ میں 220.7 ملین ڈالر کی درخواست کی گئی ہے۔
’ہماری درخواست ہمیں اپنے وسطی ایشیائی شراکت داروں کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کے لیے مدد کی مضبوط سطح کو برقرار رکھنے کی اجازت دے گی۔
’ایسے میں جب روس وسطی ایشیائی ملازمین کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ مدد سرحدی حفاظت اور انسداد دہشت گردی کے پروگراموں میں اور ملازمتوں کی تربیت اور پیشہ ورانہ ترقی کے شعبوں میں معاونت کرے گی۔‘
امریکی ایوان نمائندہ گان کی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ افغانستان کے بارے میں کانگریس کے مختلف خدشات کو سنا گیا ہے اور اس کے جواب میں امریکی امداد کو زیادہ تنگ کر دیا گیا ہے۔
افغانستان کے لیے امریکی صدر 104 ملین ڈالر کے بجٹ کی درخواست کی ہے جو مالی سال 2023 کے مقابلے میں 12 فیصد کمی ہے۔
اس بجٹ کا ایک اہم ہدف افغان خواتین، لڑکیوں اور اقلیتی گروہوں کی مدد کرنا ہے جن کے لیے طالبان اب بھی انسانی حقوق پر پابندیاں لگاتے ہیں۔
ڈونلڈ لو نے واضح کیا کہ امریکی انتظامی کنٹرول اور افغانستان کے لیے امداد پر پابندیاں دنیا میں سخت ترین ہیں۔ طالبان کو یا ان کے ذریعے کوئی امریکی یا غیر ملکی امداد فراہم نہیں کی جاتی ہے۔
تمام امریکی امداد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، بین الاقوامی این جی اوز، امریکی این جی اوز، اور ضرورت مند افغانوں کے لیے قابل اعتماد عمل درآمد کرنے والے شراکت داروں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔