اسماعیل ہنیہ کا قتل: مشرق وسطیٰ حتمی میدان جنگ بننے جا رہا ہے؟

نتن یاہو نے طویل عرصے سے خبردار کر رکھا ہے کہ اسرائیل خود ایران پر حملہ کرے گا تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے لیکن اسرائیل کے ہاتھوں تہران کی سبکی اسے جلد از جلد یہ بم بنانے پر مجبور کر سکتی ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر کی طرف سے فراہم کردہ ایک ہینڈ آؤٹ تصویر میں انہیں (دائیں) 30 جولائی 2024 کو تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ (درمیان) اور اسلامی جہاد گروپ زیاد نخلیح کے رہنما (بائیں) سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی کو تہران میں ایک حملے میں قتل کردیا گیا تھا (اے ایف پی/ خامنہ ای ڈاٹ آئی آر)

پہلی نظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کی جانب سے اپنے سب سے بڑے ’دشمن‘ پر ایران کے دارالحکومت کے قلب میں رات گئے ایک مہلک ضرب لگانے کی صلاحیت، جدید میدانِ حرب میں اس کی مہارت کا ثبوت ہے۔

چند گھنٹے قبل بیروت میں حزب اللہ کے سینیئر فوجی کمانڈر فواد شُکر کو نشانہ بنانے کے بعد تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل کے ’دشمنوں‘ کے لیے دنیا میں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کی جانب سے اپنے مخالفین کو تلاش کرنے اور مارنے کا اپنا طویل ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایسے قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، خاص طور پر اگر اس کا مقصد ان ’دہشت گرد‘ گروہوں کو کمزور کرنا ہو جو عوامی حمایت رکھتے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنا بلاشبہ بہت سے اسرائیلیوں کے لیے اطمینان بخش ہوگا، جو انہیں سات اکتوبر کے حملے کے معمار کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے اسرائیلی مارے گئے اور کئی غزہ میں یرغمال بنا لیے گئے۔ لیکن یہ قتل ان کے کٹر مقصد کو تقویت دے سکتا ہے۔

قتل عام کا نشانہ بننے والے غزہ سے کوسوں دور جب تک اسماعیل ہنیہ قطر میں محفوظ رہے، اسرائیل یہ دلیل دے سکتا تھا کہ حماس رہنما اپنی حکمت عملی کی انسانی قیمت سے لاتعلق تھے۔

اب جب کہ وہ مارے جا چکے ہیں، غزہ کے عام لوگوں کے لیے یہ کہنا زیادہ مشکل ہے کہ ’وہ ایک ایسے شخص کے لیے کیوں لڑیں جو دوحہ میں ارب پتیوں جیسی زندگی گزار رہا ہو، جب کہ آپ یہاں بھوکے مر رہے ہیں اور خون بہا رہے ہیں؟‘

حماس کے رہنما کو قتل کرنے سے تنظیم میں کچھ دیر کے لیے تو خلل پڑ سکتا ہے لیکن اسماعیل ہنیہ خود اس گروپ سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے مارچ 2004 میں اسرائیل کی جانب سے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو دھماکے سے اڑا دینے کے بعد اس کی سربراہی سنبھالی تھی۔

اگر اسماعیل ہنیہ پر اسرائیلی حملے سے پہلے ہی غزہ میں حماس اپنی موت مر رہی ہوتی تو بھی حقیقت میں لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ پھیلتی ہوئی جنگ کے آثار موجود تھے، جن کی پشت پر عراق کی سرگرم شیعہ ملیشیا اور بحیرہ احمر اور اسرائیل کی بندرگاہ ایلات تک جہازوں پر حملے کرنے والے حوثی ملیشیا کھڑی ہیں۔

یہ جلد ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ غزہ کا تنازع مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعات کا صرف ایک مرحلہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ حماس کے رہنما سے جان چھڑوا کر وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے فائر بندی کے معاہدے کے لیے سات اکتوبر کے حملے میں سکیورٹی خامیوں کے باعث کھوئی ہوئی سیاسی طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے دونوں چیزیں درکار ہیں۔

اب نہ صرف حماس کو بدلہ لینے کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ایران، حزب اللہ اور عراق اور یمن کے حوثی اور دیگر ایران نواز گروپ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ قطر نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس کا ثالثی کا کردار اسماعیل ہنیہ کے قتل سے مر گیا ہے۔

نتن یاہو کبھی بھی فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل نہیں چاہتے تھے اور اب یہ دیکھنا تقریباً ناممکن بن گیا ہے کہ اسرائیل یا فلسطینی کس طرح کوئی سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔ ان کے درمیان اعتماد سات اکتوبر سے بہت پہلے دم توڑ گیا تھا۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت سے اسرائیلی نتن یاہو کو صرف ان کی بدعنوانی اور خود غرضی سمجھتے ہوئے برا بھلا نہیں کہتے بلکہ وہ انہیں فلسطینی حملوں سے ان کی حفاظت کی ضمانت دینے میں ناکامی کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ اسرائیل میں اب کوئی جنگ مخالف تحریک نہیں ہے۔

نتن یاہو نے طویل عرصے سے خبردار کر رکھا ہے کہ اسرائیل خود ایران پر حملہ کرے گا تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے لیکن اسرائیل کے ہاتھوں تہران کی سبکی اسے جلد از جلد یہ بم بنانے پر مجبور کر سکتی ہے، جس سے مشرق وسطیٰ کے حتمی میدانِ جنگ بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے خبردار کیا ہے کہ اپریل میں ایرانی میزائل اور ڈرون جیسے کسی بھی حملے کے خلاف امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے کارروائی کرے گا۔ اس سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکیوں کو بھی ایران اور حزب اللہ جیسی پراکسی ملیشیا کے ذریعے عراق اور شام میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ایران اپنی عزت گنوا چکا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ انتقامی دھمکیوں سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہیں گے۔ یہ تشدد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن جائے گا۔

نوٹ: اس مضمون کے مصنف مارک آمنڈ کرائسس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آکسفورڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ