اسماعیل ہنیہ کو کیسے قتل کیا گیا؟ معمہ حل نہ ہو سکا

اسماعیل ہنیہ کے قتل کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تہران میں ان کی قیام گاہ پر دو ماہ قبل بم نصب کر دیا گیا تھا۔

 یکم اگست 2024 کو تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے جنازے کے دوران ایرانی شہریوں نے ان کی تصویریں اٹھا رکھی ہیں (اے ایف پی)

فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایرانی دارالحکومت تہران میں ایک حملے کے نتیجے میں موت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

حملے کے بعد سے نہ صرف مختلف قیاس آرائیوں اور مفروضوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ گذشتہ برس سات اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں کشیدہ صورت حال کا دائرہ اب دیگر خطوں میں پھیلنے کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

31 جولائی کو سب سے پہلے ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے تہران میں ایک حملے میں اسماعیل ہنیہ کی موت کی اطلاع سامنے آئی، جس کی تصدیق بعد ازاں حماس نے بھی کی۔

اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔

اس ہائی پروفائل تقریب سے سامنے آنے والی تصاویر میں انہیں آگے کی نشستوں پر بیٹھے اور دیگر سربراہان مملکت اور اہم شخصیات کے ساتھ تصاویر بنواتے دیکھا گیا۔

ایران نے اپنے مہمان اسماعیل ہنیہ کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس واقعے سے متعلق کسی قسم کی تفصیلات اب تک جاری نہیں کی گئیں کہ یہ حملہ کیسے اور کہاں کیا گیا۔

اگرچہ حماس نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہراتے ہوئے اسے ’صیہونی حملہ‘ قرار دیا، تاہم اب تک تل ابیب کا اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

اسماعیل ہنیہ کے قتل کے واقعے کے بعد کئی افواہیں اور مفروضے سامنے آ رہے ہیں۔

ایران انٹرنیشنل کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل رات دو بجے کے قریب شمالی تہران میں سابق فوجیوں کی خصوصی رہائش گاہ پر ’فضا سے آنے والے پروجیکٹائل‘ کے نتیجے میں ہوا۔ اب یہ میزائل تھا یا ڈرون اور اسے ایران کے اندر سے داغا گیا یا باہر سے؟ اس حوالے سے سب کے لب سِلے ہوئے ہیں۔

ہاں لبنانی ٹی وی المائدین نے یہ رپورٹ ضرور کیا کہ اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ پر لگنے والا میزائل ایران سے نہیں بلکہ کسی اور ملک سے داغا گیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ تہران میں کہاں رہائش پذیر تھے؟

ایران کی سرکاری فارس نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ شمالی تہران میں سابق فوجیوں کے لیے مخصوص رہائش گاہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس عمارت کے بارے میں کچھ بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

جبکہ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ اسماعیل ہنیہ تہران کے شمال میں واقع سعد آباد کمپلیکس کے بسیج الزہرا محل میں مقیم تھے۔

110 ہیکٹر پر مشتمل یہ کمپلیکس قاجار اور پہلوی بادشاہوں نے تعمیر کروایا تھا اور اس کے اندر کئی محلات ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد اسے عجائب گھر بنا دیا گیا تھا۔

’اسرائیل نے وٹس ایپ کی مدد سے اسماعیل ہنیہ کو ٹریس کیا‘

اسماعیل ہنیہ کی تہران میں رہائش گاہ سے متعلق مصدقہ معلومات تو اب تک سامنے نہیں آئی ہیں لیکن یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر انہیں وٹس ایپ کی مدد سے ٹریس کیا۔

فری پریس جرنل نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے ایک وٹس ایپ میسج کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کے فون میں سپائی ویئر انسٹال کیا تھا، جس کی مدد سے ان کی اصل لوکیشن اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کو موصول ہوئی اور ان پر ڈرون حملہ کیا گیا۔

تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چین کی طرح ایران بھی ان چند ممالک میں شامل ہے، جہاں وٹس ایپ پر پابندی ہے اور لوگ وی پی این کے ذریعے یہ ایپ استعمال کرتے ہیں، لیکن وٹس ایپ اپنے رجسٹرڈ فون نمبروں کی مدد سے یہ پتہ لگا سکتا ہے کہ اس کے صارفین کہاں موجود ہیں۔

وٹس ایپ کے سربراہ کیتھ کارٹ نے رواں برس اپریل میں بی بی سی نیوز کو بتایا تھا: ’ہمارے پاس وٹس ایپ استعمال کرنے والے لوگوں کے بارے میں بہت سی رپورٹس کی اطلاعات ہیں اور ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم کچھ ایسے ممالک کو دیکھ رہے ہیں جہاں ہم ایپ کی بندش دیکھ رہے ہیں اور اب بھی لاکھوں لوگ وٹس ایپ سے جڑے ہوئے ہیں۔‘

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے معاملات پر سالوں سے کوریج کرنے والے صحافی ایلیا جے میگنیئر بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو بھیجے گئے وٹس ایپ پیغام کے ذریعے جدید ترین سپائی ویئر لگائے تھے اور اس سافٹ ویئر نے اسرائیلی انٹیلی جنس کو اس قابل بنایا کہ وہ اسماعیل ہنیہ کی درست لوکیشن کا سراغ لگا سکے۔

ایکس پر اپنے ایک بیان میں ایلا جے میگنیئر نے لکھا کہ اسماعیل ہنیہ نے آخری مرتبہ اپنے بیٹے سے فون پر گفتگو کی، جس کے بعد اسرائیلی فورسز نے ان کے مقام کی نشاندہی کر کے اسماعیل ہنیہ کو قتل کر دیا۔

بقول ایلا جے میگنیئر  یہ سپائی ویئر اسرائیل کی سائبر انٹیلی جنس فرم این ایس او گروپ کے تیار کردہ بدنام زمانہ پیگاسس سافٹ ویئر سے ملتا جلتا ہے۔ پیگاسس سافٹ ویئر کی مدد سے کسی بھی سمارٹ فون کے پیغامات، تصاویر اور لوکیشن کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور یہاں تک کہ صارف کے علم میں لائے بغیر فون کے کیمرہ اور مائیکروفون کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی ریئل ٹائم نگرانی اور اہداف کو درست انداز میں نشانہ بنانے کے قابل بناتی ہے۔

’اسماعیل ہنیہ کی قیام گاہ پر دو مہینے قبل بم نصب کر دیا گیا تھا‘

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مشرق وسطیٰ کے سات حکام، جن میں دو ایرانی اور ایک امریکی عہدے دار شامل ہیں، کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ بدھ کو تہران کے جس مہمان خانے میں نشانہ بنایا گیا وہاں بم کو پہلے سے چھپا کر پہنچایا گیا تھا۔

رپورٹ میں حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ مہمان خانے میں بم تقریباً دو مہینے سے چھپایا گیا تھا۔ اس مہمان خانے کے انتظامات اور سکیورٹی پاسدران انقلاب کے حوالے تھی۔

مشرق وسطی کے پانچ حکام نے بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کی مہمان خانے میں موجودگی کی تصدیق ہونے پر بم کو ریمورٹ سے اڑا دیا گیا۔

دھماکے سے عمارت لرز اٹھی اور متعدد کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ نیویارک ٹائمز سے شیئر کی گئی ایک تصویر میں عمارت کو پہنچنے والا نقصان نظر آ رہا ہے۔

ان حکام کا مزید کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ تہران کے کئی دوروں کے دوران اسی مہمان خانے میں ٹھہرے تھے۔

واقعے کے فوراً بعد قیاس آرائیاں تھیں کہ اسرائیل نے ڈرون یا طیارے کی مدد سے میزائل داغا جس نے اسماعیل ہنیہ کی قیام گاہ کو نشانہ بنایا۔

تاہم ان قیاس آرائیوں سے متعلق سوالات پیدا ہو رہے تھے کہ اسرائیل نے کیسے ایرانی کے فضائی دفاع کو چکما دیا۔ تاہم اب پتہ چلتا ہے کہ قاتلوں نے ایران کے دفاع میں ایک مختلف قسم کے خلا

کا فائدہ اٹھایا اور بم کو کئی ہفتوں قبل ہی نصب کر دیا گیا تھا۔ اس بم کو بعد ازاں موقع آنے پر اڑا دیا گیا۔

اگرچہ ان تمام مفروضوں کے حوالے سے اب تک حتمی طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آئی ہے، تاہم حماس کا دوسرا گھر کہلائے جانے والے ایران کے قلب میں اس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ پر جان لیوا حملہ بغیر منصوبہ بندی اور تکنیکی مہارت کے نہیں ہوسکتا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا