حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی موت کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں تین ڈالر اضافہ ہوا ہے، البتہ سونے کی قیمت نہیں بڑھی۔ عمومی طور پر مارکیٹ رسپانس لاتعلقی کا رہا۔ لیکن اس موت سے خطے پر ایک وسیع اور خونی جنگ کے بادل زیادہ گہرے ہو گئے ہیں۔
خطرہ بہت ہی بڑا اور حقیقی ہے، جو بھی فریق تصادم کا راستہ اختیار کرے گا وہ اس سے پہلے کئی بار سوچے گا کہ غزہ میں جاری جنگ کو وسعت دینے کے نتائج کیا ہوں گے۔ یقینا اسے محدود رکھنا مشکل ہوگا، دیگر ممالک کے شامل ہونے کا امکان بڑھ جائے گا البتہ کچھ لوگوں کے خیال میں کسی بڑی جنگ کے نتائج کی سوچ اتنی خوفناک ہے کہ وہی کسی بڑی علاقائی جنگ کو شروع ہونے سے پہلی ہی روک لے گی۔
اسرائیل فلسطین کے آپسی مسائل بہت پیچیدہ اور گہرے ہیں جو ایک یا دو دن یا کچھ واقعات سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے، اکثر ویسے ہی کشیدہ رہتے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ یقینا غزہ میں روزانہ مرنے اور بچ جانے والوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
جلد کسی پائیدار حل کی ضرورت اس سے قبل شاید کبھی اتنی ضروری نہیں تھی جتنی اب ہے۔ لیکن ساتھ میں عالمی بےبسی بھی اس سے قبل اتنی واضح نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تو ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے، اور قم کی مسجدِ جمکران پر سرخ پرچم بھی لہرا دیا گیا ہے جو انتقام کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن کہنے اور کرنے میں فرق ہے۔
اس سے قبل 2019 میں ایران کے جوہری پروگرام کے بانی محسن فخر زادہ کو بھی مبینہ طور پر اسرائیل نے قتل کر دیا تھا، لیکن اس پر بھی ایران نے دھمکیاں دینے کے علاوہ کوئی خاص ردِعمل نہیں دکھایا تھا۔
ایران کا براہِ راست کوئی بڑا ردِعمل تو شاید اب بھی سامنے نہ آئے، البتہ خدشہ ہے کہ ایران حزب اللہ اور حوثیوں جیسے پراکسیز کی صورت میں کوئی بالواسطہ کارروائی کرنے کی یقیناً صلاحیت رکھتا ہے۔
دوسری جانب امریکی اور برطانوی بحری جہاز اسرائیلی بندرگاہوں کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ یہ نقل و حرکت کسی حملے کی صورت میں دفاع کے لیے ہی یقینا ہے اور امریکہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اسرائیل کا ہر حال میں دفاع کرے گا۔
ایرانی انٹیلی جنس کی ناکامی
یہ واقعہ انتہائی گمبھیر ہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اس کی پاسدارانِ انقلاب کی سخت حفاظتی حصار میں واقع عمارت کے اندر ایک اہم مہمان کو قتل کر دیا گیا، جس سے ایران کی انٹیلی جنس اور ٹیکنیکل صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اور ایسا بھی نہیں کہ اسرائیل نے پہلی بار ایران کے اندر مبینہ طور پر گھس کر کارروائی کی ہو۔ اس سے قبل کئی ایرانی جوہری سائنس دان اور پاسدارانِ انقلاب کے اہم عہدیدار جان لیوا حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ حملے ان پر ایران کی اندر سڑکوں اور گلیوں جیسے عام مقامات پر ہوئے ہیں۔
اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں اسرائیلی جاسوسوں کی تعداد بڑھی ہے کیونکہ ان حملوں سے اسرائیلی نیٹ ورک اپنے وجود کا ثبوت کئی بار دے چکا ہے۔
2010 میں ایران کے سابق انٹیلی جنس عہدایدار علی یونسی نے جمران نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اسی سال ایک نئی ایرانی انٹیلی سروس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا مقصد جدید تقاضوں کے مطابق سبوتاژ کی کارروائیاں روکنا تھا۔
تاہم اس تازہ جانی نقصان کے بعد ایرانی انٹیلی جنس کی صلاحیت کے بارے میں سوال اٹھنا اب لازمی ہیں۔
عالمی مبصرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں چین کا بہت کچھ معاشی طور پر داؤ پر لگا ہے اور وہ کوئی بڑی جنگ نہیں ہونے دے گا۔ دنیا چین اور دیگر عالمی طاقتوں سے اسی رویے کی توقع کر رہی ہے لیکن کیا ایران خاموش بیٹھے گا اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔