امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے راولپنڈی میں دھرنا دے رکھا ہے۔
انہوں نے جو 10 مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں وہ سب عوام کی آواز ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے، جس نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔
ماضی میں دھرنوں اور لانگ مارچز کے مقاصد انتخابات میں مبینہ دھاندلی رہے ہیں۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا بھی انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق تھا۔
شاید یہ پہلا دھرنا ہے جو خالصتاً عوامی مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دھرنے سے بجلی کی قیمت کم ہو گی؟
اس حوالے سے ترجمان جماعت اسلامی قیصر شریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دھرنا ختم کرنے کی جو شرائط رکھی گئی ہیں ان میں سرفہرست بجلی کی قیمتوں میں کمی ہے۔
’ہر دن خبر آ رہی ہوتی ہے کہ بجلی کے بل ادا نہ کرنے پر خودکشی کر لی گئی یا بھائی نے بھائی کا قتل کر دیا، لیکن سرکار بے حسی کی علامت بن کر کھڑی ہے۔‘
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ’پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی واحد بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہیں۔
’حکومت کا موقف ہے کہ اگر معاہدے تبدیل کیے تو باہر سے آئے ہوئے آئی پی پیز ملک کو عالمی عدالت میں لے جائیں گے، جب کہ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ جو آئی پی پیز حکومتی وزیروں، مشیروں اور سیاست دانوں کی ملکیت ہیں، ملکی مفاد میں ان معاہدوں کو تو پہلے تبدیل کیا جائے۔
’اس مطالبے نے حکومت کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ بیرونی آئی پی پیز میں چینی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ چین سمیت تمام آئی پی پیز سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ اگر سرکار میں اہلیت نہیں تو جماعت اسلامی کی ٹیم چین سے بات کر سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی نے ہوم ورک مکمل کر رکھا ہے۔ ہمارے مطالبات جذباتی نعرے نہیں بلکہ قابل عمل ہیں اور ہم ہر مسئلے کا حل بھی تیار کر کے لائے ہیں۔
’ہماری تکنیکی ٹیم، خصوصی طور پر سید فراصت شاہ نے حکومت کے سامنے مکمل لائحہ عمل رکھا ہے کہ کس طرح بجلی کی قیمت کم کی جا سکتی ہے۔
’سرکار بھی ہماری ورکنگ کو جھٹلا نہیں رہی۔ اس وقت بجلی کی قیمت 20 روپے فی یونٹ سے کم ہے۔ باقی چارجز آئی پی پیز کی وجہ سے ہیں۔
’1994 سے آج تک آئی پی پیز ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اب عوام مزید ظلم برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر حکومت آئی پی پیز معاہدے تبدیل نہیں کرتی تو ہمارے پاس پلان بی، سی اور ڈی بھی ہیں۔ اگلے مرحلے میں تمام تجارتی مراکز، بازار اور فیکٹریاں بند کی جا سکتی ہیں۔
’اس کے بعد یہ دھرنا ملک کے تمام بڑے شہروں میں دیا جا سکتا ہے۔ اگلے مرحلے میں ملک کی تمام بڑی شاہراہیں بلاک کی جا سکتی ہیں۔ حکومت یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتی۔ اسے ہر صورت عوام کو ریلیف دینا پڑے گا۔‘
عارف حبیب لمیٹڈ کے پاور سیکٹر کے تحقیقی سربراہ محمد عمد کے مطابق آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹ کا مسئلہ حل کرنے سے بجلی کی قیمت کم ہوسکتی ہے۔
’اس وقت بجلی پیدا کرنے کے لیے توانائی کا خرچ فی یونٹ تقریباً نو روپے اور کپیسٹی چارجز تقریباً 17 روپے ہیں۔ بجلی چوری اور دیگر نقصانات کے چارجز بھی ڈالے جاتے ہیں۔
’اس کے علاوہ ٹیکس بھی چارج کیا جاتا ہے۔ ٹیکسز والے معاملے پر آئی ایم ایف کو تحفظات ہو سکتے ہیں، لیکن کپیسٹی چارجز کم کرنے پر آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی پاور کمپنیوں کی کپیسٹی پیمنٹ کم کرے۔ یہ آسان ہے۔ چائنیز آئی پی پیز نئے معاہدے نہیں کریں گے۔
’جب تحریک انصاف کے دور میں معاہدے دہرائے گئے تھے تب بھی چائنیز آئی پی پیز نے پاکستان کے مطالبات نہیں مانے تھے اور تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’معاہدے کینسل کرنے سے سرمایہ کاری کی مارکیٹ میں پاکستان کی ریٹنگ مزید گر سکتی ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ ’ماضی میں دیے گئے دھرنوں کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس دھرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
’ملائشیا میں بھی آئی پی پیز کے معاہدے تبدیل کیے گئے۔ 2018 میں ملائیشین سرکار نے عوام کو سستی بجلی مہیا کرنے کے لیے چار آئی پی پیز کے معاہدے منسوخ کر دیے تھے۔
’تحریک انصاف کے دور میں بھی آئی پی پیز سے کامیاب مذاکرات ہوئے اور معاہدے تبدیل کیے گئے۔ 1994 میں کیے گئے معاہدے تو ختم ہونے والے ہیں۔
’ 2002, 2006 اور 2015 کے معاہدے اصل مسئلہ ہیں۔ تقریباً 49 فیصد انسٹالڈ کپیسٹی حکومت کے پاس ہے۔ 36 فیصد سی پیک اور 15 فیصد پرائیویٹ ہے۔ مصدق ملک نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ شاید کوئی فارمولا بن جائے، لیکن امید کم ہے۔‘
ایف پی سی سی آئی کے ایکٹنگ پریزیڈنٹ ذکی اعجاز نے بتایا کہ ان کی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی ہے۔ ’وزیر اعظم اور صدر زرداری پرامید ہیں کہ وہ بجلی کی قیمتیں کم کرسکیں گے۔ وزیراعظم نے چینی صدر کو خط بھی لکھا ہے۔
’سب اپنی جگہ کوشش کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنا کام کر رہی ہے اور ایف پی سی سی آئی اپنا کام کر رہی ہے۔ اصل مقصد بجلی کی قیمت میں کمی لانا ہے وہ چاہے دھرنے سے ہو یا سپریم کورٹ سے ہو۔
’میں پرامید ہوں کہ حکومت کے تحت چلنے والے آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹ میں فوری کمی ہو گی جس سے بجلی کی قیمت کم ہو سکے گی۔‘
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔