سیاسی معاملات پر عدالتی فیصلہ واضح ہے، برطانیہ میں اجلاس پر پاکستان کا ردعمل

برطانوی پارلیمان کے اراکین نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس پر نوٹس لینے کا کہا تھا۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام ملک کے پارلیمانی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی پیغام ہمارا بین الاقوامی برادری کو بھی ہے۔

دو روز قبل برطانوی پارلیمان کے اراکین نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس پر نوٹس لینے کا کہا تھا۔ اراکین نے پاکستان میں ’جمہوریت کی واپسی اور عمران کی فوری رہائی کا مطالبہ‘ بھی کیا تھا۔

ترجمان نے اس سے قبل بریفنگ کے دوران اس سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر جواب دیا تھا کہ لندن میں ہونے والی تقریب “ہاؤس آف لارڈز کے ایک سائیڈ روم میں منعقدہ ایک نجی تقریب تھی۔ اس کا اہتمام ایک سیاسی جماعت نے کیا تھا جس نے پارلیمنٹ کے چند اراکین کو مدعو کیا تھا۔‘

ترجمان نے کہا کہ انہوں نے وہاں ہونے والی بات چیت کو نوٹ کیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی پیش رفت پر سپریم کورٹ کی جانب سے بیانات اور فیصلے سامنے آ چکے ہیں۔

 ’جیسا کہ ہم کئی مواقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ قانون ساز اداروں کے اراکین کا دو طرفہ تعلقات میں مثبت ڈائنامکس کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ ان کا پاکستان اور ملک کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینے میں حصہ ڈالنا بھی اہم ہے۔‘

’پاکستان اور امریکہ کے درمیان اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا تعلق‘

گذشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق کہا تھا کہ ’ہم تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک اور جمہوریت و انسانی حقوق کے احترام پر زور دیتے ہیں۔‘

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’امریکی کانگریس اور ان کی انتظامیہ کے درمیان یہ ایک اندرونی ڈائیلاگ ہے۔ پاکستان کی یہ پوزیشن رہی ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر، باہمی احترام کی سطح پر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کا ایک اہم ستون یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بڑھانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

’فرینکفرٹ واقعے میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کی اطلاع نہیں‘

رواں ماہ 20 جولائی کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں واقع پاکستانی قونصل خانے کے احاطے میں مشتعل ہجوم داخل ہوا جنہوں نے ہاتھوں میں افغانستان کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس احتجاجی مظاہرے میں مقررین نے پاکستانی حکمرانوں اور افواج پاکستان کے خلاف ’نازیبا الفاظ کا استمعال کیا جس سے شرکا میں اشتعال پھیل گیا۔‘ مظاہرے میں شریک بعض افراد نے پاکستانی قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہو کر پاکستان کے پرچم کو پول سے اتارا اور اس کی ’بے حرمتی کرتے ہوئے‘ جلانے کی بھی کوشش کی۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس واقعے میں پاکستانیوں کے ’ملوث ہونے سے متعلق ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہم فرینکفرٹ اور برلن میں حکام سے رابطے میں ہیں جبکہ فرینکفرٹ میں ہمارا سفارت خانہ پولیس کے ساتھ تفتیش کی پیروی کر رہا ہے۔ مزید تفصیلات ملنے پر میڈیا سے شئیر کی جائیں گی۔‘

القاعدہ رہنما کی گرفتاری

ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ  القاعدہ کے رہنما امین الحق کو جولائی میں گرفتار کیے جانے سے متعلق محکمہ انسداد دہشت گردی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔

گذشتہ دنوں پاکستان پولیس انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے القاعدہ کے رہنما اور اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی امین الحق کو گرفتار کرنے کا دعوی سامنے آیا تھا۔ امین الحق اسامہ بن لادن کے سکیورٹی سپروائزر رہ چکے ہیں۔

واضح رہے سی ٹی ڈی نے امین الحق کو آٹھ جوالائی کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا تھا۔

ترجمان دفتر خارجہ نے سی ٹی ڈی کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے رکن امین الحق، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں، کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے افغانستان سے پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہوئے مارچ میں گرفتار کیا تھا۔

’ہم نے مارچ اقوام متحدہ کو یہ معلومات فراہم کیں اور رپورٹ میں اسی کا حوالہ دیا گیا ہے۔‘

ممتاز زہرہ نے مزید کہا کہ ’سی ٹی ڈی امین الحق کی تفتیش اور پراسیکیوشن کی قیادت کر رہی ہے۔ اس حوالے سے سی ٹی ڈی سے مزید وضاحت طلب کر سکتے ہیں۔‘

وزیر اعظم کا دورہ ایران

ترجمان نے بریفنگ کے اختتام پر وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ایران سے متعلق بتایا کہ وہ 30 جولائی کو ایران کی اسلامی مشاورتی اسمبلی کے سپیکر محمد باقر غالب کی دعوت پر تہران کا دورہ کریں گے، جہاں وہ ایران کے نو منتخب صدر کے لیے افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا