برطانیہ میں مساجد تحریک کے بانی پیر معروف حسین نوشاہی کون تھے؟

پیر معروف حسین نوشاہی نے صرف بریڈ فورڈ میں 18 بڑی مساجد تعمیر کروائیں جن میں بریڈ فورڈ کی مرکزی جامع مسجد بھی شامل ہے جہاں بیک وقت پانچ ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔

پیر سید معروف حسین نوشاہی کو برطانیہ میں مساجد تحریک کا بانی کہا جاتا تھا (تصویر: اشتیاق احمد، بریڈ فورڈ)

برطاندی شہر بریڈ فورڈ کو ’لٹل پاکستان‘ کہا جاتا ہے۔ شہر کی کل آبادی کا 25 فیصد پاکستانیوں پر مشتمل ہے، جن کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار ہے۔ برطانیہ کی 2021 کی مردم شماری کے تحت مسیحی سب سے اکثریتی طبقہ ہے، جو شہر کی آبادی کا 33.4 فیصد ہیں، جب کہ اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والے شہر کی آبادی کا 30.5 فیصد ہیں۔

اسی شہر میں ایک ہفتہ پہلے بریڈ فورڈ کی ایک معروف روحانی اور دینی شخصیت پیر سید معروف حسین نوشاہی 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، جن کی وفات کو برطانوی میڈیا نے بھی غیرمعمولی اہمیت دی۔

ان کی نماز جنازہ میں برطانیہ اور یورپ بھر سے 15 ہزار سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی جس کے لیے ٹریفک پولیس کو خصوصی انتظامات کرنا پڑے۔ برطانیہ کی 2021 کی مردم شماری کے تحت یہاں مسلمانوں کی کل تعداد 39 لاکھ ہے، جو کل آبادی کا 6.5 فیصد ہیں، جب کہ 1961 کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد صرف 50 ہزار تھی۔ مسلمز ان بریٹن نامی ویب سائٹ کے مطابق 2024 تک برطانیہ میں مساجد کی کل تعداد 1864 ہے۔

پیر سید معروف حسین نوشاہی کو برطانیہ میں مساجد تحریک کا بانی کہا جاتا تھا۔ انہوں نے صرف بریڈ فورڈ میں 18 بڑی مساجد تعمیر کروائیں، جن میں بریڈ فورڈ کی مرکزی جامع مسجد بھی شامل ہے، جہاں بیک وقت پانچ ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔

پیر معروف حسین نوشاہی کون تھے اور انہیں برطانیہ کی مسلم کمیونٹی میں ممتاز مقام کیوں حاصل تھا؟

وہ واقعہ جو برطانیہ آمد کی وجہ بنا

یہ نائن الیون کے دو سال بعد کا زمانہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہو چکی ہے اور برطانوی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ میں برید فورڈ میں مقیم پیر سید معروف حسین نوشاہی سے ملنے ساؤتھ فیلڈ سکوائر کے ایک ٹیرس ہاؤس پہنچا، جو ڈھائی سو سال پرانا ایک گھر تھا۔ پتھر کی گلیاں اور ان میں پتھر کے بنے ہوئے گھر برطانیہ کے عہد رفتہ کی علامت کے طور پر کھڑے تھے۔

پیر صاحب کا گھر اندر سے بہت سادہ اور واجبی سا تھا، جس کے اندر سازوسامان کسی طور برطانیہ کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا بلکہ پاکستان کے کسی گاؤں سے ملتا جلتا تھا۔ پیر صاحب  اپنے کمرے میں فرش پر روئی کے گدے  پر تشریف فرما تھے۔ جہاں ان سے ملنے والے ملاقاتی موجود تھے۔

پیر صاحب نے مجھے اپنی داستانِ حیات کے بارے میں بتایا کہ ان کی برطانیہ آمد ایک حادثے کے طور پر ہوئی تھی۔ وہ ڈوگرہ راج کے دوران 20 جون 1936 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر چکسواری میں ایک علمی اور روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

1954 میں میٹرک کیا۔ دینی تعلیم جہلم اور راولپنڈی کے مدارس سے حاصل کی۔ منگلا ڈیم کی وجہ سے مقامی آبادیاں متاثر ہوئیں تو لوگوں نے روزگار کے لیے برطانیہ کی طرف ہجرت شروع کر دی۔

یہ لوگ جب واپس اپنے وطن چھٹی پر جاتے تو ان کے ناز نخرے دیکھنے والے ہوتے۔ ہمارے گاؤں کے ایک ایسے ہی آدمی ہمارے گھر ملنے تشریف لائے تو ہم نے انہیں بیٹھنے کو چارپائی دی مگر وہ راضی نہیں ہوئے کہ کہیں ان کے سفید کپڑے اس بوسیدہ چارپائی سے خراب نہ ہو جائیں۔

حالانکہ اس سے پہلے ہمارے گھر میں اگر کسی کو بیٹھنے کے لیے چٹائی بھی پیش کی جاتی تو وہ اسے بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا۔

اس واقعے کی وجہ سے میں نے بھی برطانیہ آنے کا قصد کیا جو آگے جا کر ایک بڑی تحریک کی بنیاد بن گیا۔ پاسپورٹ بنوانے اور ٹکٹ وغیرہ پر چھ ہزار کا خرچہ آیا جو کچھ خود اور کچھ ادھار لے کر پورا کیا۔ یوں 26 اپریل 1961 کو برطانیہ پہنچ گیا اور ایک فیکٹری میں کام کرنے لگ گیا جہاں ایک دن میں 18 گھنٹے کام کرتا تھا۔

مساجد تحریک کا آغاز کیسے ہوا؟

پیر سید معروف حسین نوشاہی نے بتایا کہ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ہمارے لوگ دین سے دور ہو چکے ہیں۔ اس احساس کے تحت 1963 میں جمیعت تبلیغ الاسلام کی بنیاد رکھی اور ایک گھر خرید کر وہاں با جماعت نمازوں، جمعہ اور عیدین وغیرہ کے اجتماعات ہونے لگے۔

اس زمانے میں پاکستانی تارکین وطن اکیلے رہتے تھے اور ’بعض نے دوسری جنگ عظیم میں بیوہ ہو جانے والی انگریز عورتیں بھی رکھی‘ ہوئی تھیں۔ ’شراب و کباب کی محفلیں‘ ہوتی تھیں۔ ان حالات میں لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

تاہم جب 80 کی دہائی میں پاکستان سے تارکین وطن کے بیوی بچے آنے لگے تو پھر بچوں کی دینی تعلیم کے لیے مساجد کی ضرورت بڑھ گئی۔ ’ہماری تنظیم نے یہ ضرورت پوری کی اور بریڈ  فورڈ میں 18 مساجد تعمیر کر دیں۔ جن میں کئی ملین پاؤنڈ کی لاگت سے ایک وسیع و عریض مرکزی جامع مسجد بھی بنا دی جس کا شمار آج یورپ کی خوبصورت ترین مساجد میں کیا جاتا ہے‘۔

پیر معروف حسین نوشاہی نے بتایا کہ انہی کی تجویز پر 1974 میں مکہ میں ورلڈ اسلامک مشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا مرکزی نائب صدر انہیں منتخب کیا گیا تھا جبکہ علامہ شاہ احمد نورانی اس کے پہلے صدر بنائے گئے  تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی کوششوں سے پاکستان سے تین سو سے زائد علما کو برطانیہ بلا کر انہیں برطانوی مسلمانوں کی دینی و روحانی تربیت کا موقع دیا گیا۔

کمیونٹی ان کی حیات و خدمات کو کیسے دیکھتی ہے؟

پیر سید معروف حسین نوشاہی کی خدمات سے تین نسلوں نے استفادہ کیا ہے اور ان کی بنائی ہوئی مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور اسلامی سکولوں کے اثرات دور رس ہیں جنہیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔

بریڈ  فورڈ میں بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی ان کی کاوشیں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی وفات پر ہندو، سکھ ، مسیحی اور یہودی رہنماؤں نے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیپنڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے برطانیہ کی تاریخ کے پہلے مسلمان اور غیر سفید فام لارڈ میٔر محمد عجیب نے کہا کہ انہوں نے ’اس وقت برطانیہ میں دین کا بیڑہ اٹھایا جب یہاں ہماری کمیونٹی کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا کہ رمضان کب شروع ہوا اور کب عید ہوئی۔

’انہوں نے عام مولویوں کی طرح کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ اس بات کے داعی تھے کہ پاکستانی اور مسلمان کمیونٹی صف اوّل کی برطانوی سیاست میں اپنی شمولیت  بڑھائے، خود میری سیاسی جدوجہد کے وہ ایک بڑے حامی تھے۔‘

کیو ای ڈی جو بریڈ فورڈ میں کمیونٹیز کی تربیت اور رہنمائی کے لیے سرگرداں ہے اس کے چیف ایگزیکٹو  ڈاکٹر محمد علی او بی ای نے کہا کہ آج  تقریباً 20 لاکھ  پاکستانی برطانیہ میں آباد ہیں جس کی تاریخ ہمیشہ پیر سید معروف حسین نوشاہی کی خدمات کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔ 

کونسل برائے مساجد کے سابق ترجمان اشتیاق احمد نے کہا کہ آج برطانیہ میں اسلام کے علاوہ  تمام مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد زوال پذیر ہے۔ اسلام اس لیے ترقی کر رہا ہے کہ یہاں اسلام کی تبلیغ اور تربیت کے ادارے موجود ہیں جن کا کریڈٹ پیر صاحب کو جاتا ہے ۔

’انگلستان میرا انگلستان‘ جیسی معروف کتاب سمیت درجنوں کتابوں کے مصنف اور بریڈ  فورڈ  کی ممتاز علمی و ادبی شخصیت یعقوب نظامی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیر صاحب کی وفات سے پورا شہر سوگوار ہے لیکن ان کی خدمات کے ثمرات سے ہم مستفید ہوتے رہیں گے۔

’مجھے ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ 1961 میں ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترتے وقت انہوں نے وہاں دعا مانگی تھی کہ وہ یہاں اسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ وقت قبولیت کا تھا۔‘

یعقوب نظامی نے بتایا کہ وہ فیکٹری میں کام کرتے تھے اور اس کے ساتھ اپنے گھر میں محلے کے بچوں کو درس دیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب انہوں نے پورے شہر کو اسلامی شناخت میں بدل دیا۔ ان کے پاس نہ تو ذاتی کار تھی نہ ہی انہوں نے کبھی ڈرائیونگ سیکھی۔ ایک سادہ سے گھر میں پوری زندگی گزار دی۔ حقیقتاً وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔

معروف کالم نگار اور شاعر منصور آفاق جو پیر معروف حسین نوشاہی کی زندگی پر لکھی جانے والی  کتاب ’عارف نامہ‘ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیر معروف حسین نوشاہی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک عملی انسان تھے وہ جو کہتے تھے اس کی مجسم تصویر بھی تھے۔  

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ