کیسی ہے یہ رسوائی 

ڈراما ’کیسی ہے یہ رسوائی‘ دو متوازی ادوار میں سفر کر رہا ہے۔ ایک دور 1979 کا ہے اور دوسرا زمانِ موجود ہے۔

ایک کہانی وارث کی ہے، دوسری وارث کی ماں شہلا کی ہے جو اب جیل میں اپنی سزا پوری کرنے والی ہے (یوٹیوب، ایکسپریس ٹی وی)

اگر انسان کا ظرف بڑا ہو تو وہ حالات کے طوفان میں سینہ سپر ہو کے خود سمندر بن جاتا ہے۔ وہ سمندر جو دکھ سکھ سب کچھ جھیل سکتا ہے اور ساتھ بھی نبھاتا ہے۔

یہ ڈراما ایک فلسفی نما عورت کی کہانی ہے، جس نے جیل کی چار دیواری میں زندگی کے وہ بھید سیکھ لیے ہیں، جو انسان ایک آزاد زندگی گزار کر نہیں سیکھ پاتا۔

ڈراما ’کیسی ہے یہ رسوائی‘ دو متوازی ادوار میں سفر کر رہا ہے۔ ایک دور 1979 کا ہے اور دوسرا زمانِ موجود ہے۔

ایک کہانی وارث کی ہے، دوسری وارث کی ماں شہلا کی ہے جو اب جیل میں اپنی سزا پوری کرنے والی ہے۔ شہلا کو اپنے دور میں  ٹیکسی ڈرائیور شہزاد سے محبت ہو جاتی ہے۔ شہزاد کی ماں  اس رشتے سے راضی نہیں ہے، مجبوراً شہزاد اور شہلا کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔  شہزاد کی ماں اس رشتے کو قبول نہیں کرتی اور ٹھان لیتی ہے کہ وہ خاموشی سے ماں ہونے کی طاقت دکھائے گی اور اس رشتے کو باقی نہیں رہنے دے گی، پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔

 شہزاد کی بہن کا بھی شوہر اور سسرال سے جھگڑا ہی رہتا ہے، اس کی پہلی شادی ناکام ہو چکی ہے، دوسری بھی کامیاب نہیں ہے۔ ماں اپنی بیٹی کے نصیب کو ہی کوس کر رہ جاتی ہے مگر بھائی کا خیال ہے کہ اس کی بہن کو بھی رشتے کے حوالے سے میچور رویہ اپنانا چاہیے۔

جو بیٹیاں شادی کے بعد ماؤں کے ساتھ جڑی رہتی ہیں ان کی شکایت اکثر یہی ہوتی ہے۔ یوں شہزاد کی ماں اور بہن کو اس شادی سے زندگی میں کچھ نیا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ شادی کے بعد شہزاد دبئی چلا جاتا ہے اور شہلا سے وعدہ کر کے جاتا ہے کہ وہ ایک سال میں اسے دبئی بلا لے گا۔ شہلا کے گھر والے اس سے پہلے ہی نالاں ہیں، اس لیے سسرال میں رہنا اس کی مجبوری ہے۔ شہزاد کی ماں فون پہ شہزاد کو شہلا کے حوالے سے بدگمان کرتی ہے۔ شہزاد کی ماں اپنی عیار طبیعت سے معاملہ وہاں تک لے جاتی ہے کہ بیٹے کا گھر خاک ہو جائے۔

ڈراما ہمیں صاف صاف بتا رہا ہے کہ ہم نے سماج کو خود اپنے رویوں سے بیمار کیا ہے۔ جہاں زنا اور محبت میں دھوکہ قابل معافی ہے لیکن نکاح کر لینا، گھر والے نہ مانیں تو کورٹ میرج کر لینا، یہ ناقابل معافی جرم ہے، جس کی سزا رشتے دار اور سماجی کردار مل کر ساری عمر دیتے ہیں۔

شہلا امید سے ہوتی ہے، حالات بگڑتے جاتے ہیں، اسی دوران وارث پیدا ہو جاتا ہے اور شہلا اسے اپنی بڑی بہن کو دے دیتی ہے جو اس کی واحد مخلص ہے مگر بے اولاد ہے۔  خود وہ ساس بہو کے جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ کر جیل بھیج دی جاتی ہے۔ یہاں کہانی ابھی بھید ہے۔ اس سب حقیقت کا خاندان میں کسی کو علم نہیں ہو پاتا کہ وارث شہلا کی بہن کی اولاد نہیں ہے۔

وارث وقت کی گود میں پل کر جوان ہو جاتا ہے، نوکری مل جاتی ہے، محبت مل جاتی ہے، ایک بیٹی کا باپ بن جاتا ہے، تب اسے علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی خالہ کے پاس پلا ہے اور اس کی ماں شہلا ہے جو جیل میں کسی جرم کی سزا کاٹ رہی ہے۔ اس سچائی سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو سا دیتا ہے۔ اس  کے ضبط اور صبر و اخلاق کے سب پیمانے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کی زمینِ دل پہ اچانک شدید زلزلہ آ جاتا ہے جس میں اس کی بیوی اورنومولود بیٹی بھی متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جیل اپنی ماں سے ملنے جاتا ہے، ماں ملنے سے انکار کر دیتی ہے، وہ پھر جاتا ہے تو ماں کی ایک جھلک نصیب ہو ہی جاتی ہے۔ ماں اسے ملنا نہیں چاہتی مگر بیٹے کو دیکھ کے دل و دماغ کو دھچکا ضرور لگتا ہے۔

شہلا  کو اس کے اچھے کردار کی وجہ سے سزا میں کمی بھی ہو جاتی ہے مگر وہ جیل سے نہیں جانا چاہتی۔ نہ ہی وہ کسی سے ملنا چاہتی ہے۔ وہ رشتوں سے ڈری ہوئی ایک حقیقت شناس عورت بن چکی ہے۔ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد گھروں میں ایسے ہی بے جرم جیل نما زندگی گزار رہی ہے، ان کے چہروں پہ شہلا جیسی بے رونقی ہی ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہلا کی جوانی کا کردار کنزیٰ ہاشمی اور بڑھاپے کا کردار بشریٰ انصاری نے ادا کیا ہے اور کیا خوب ادا کیا ہے۔ ایک ایسی عورت جس نے محبت کے سوا کوئی جرم نہیں کیا مگر اسے عمر بھر محبت کی سزا کاٹنی پڑ جاتی ہے۔

وارث اور اس کی بیوی آئلین مثالی جوڑی تھے جنہیں اس کے دوست ارباز کی نظر کھا جاتی ہے۔ وارث اپنے ماضی اور ماں کے بارے میں اپنا ذہنی توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تو اپنی بیوی اور بیٹی سے بھی عدم دلچسپی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ آئلین پہلے ہی وارث سے ڈسکس کر چکی ہے کہ اسے ارباز کا اپنے ساتھ بہت فری ہونا اچھا نہیں لگتا، اب ارباز کی عیار طبیعت کو قرار آنے لگتا ہے کہ وارث کی آئلین سے بدسلوکی اس کے دل اور زندگی میں ارباز کی جگہ بنا دیں گے۔

ڈراما ہمیں صاف صاف بتا رہا ہے کہ ہم نے سماج کو خود اپنے رویوں سے بیمار کیا ہے۔ جہاں زنا اور محبت میں دھوکہ قابل معافی ہے لیکن نکاح کر لینا، گھر والے نہ مانیں تو کورٹ میرج کر لینا، یہ ناقابل معافی جرم ہے، جس کی سزا رشتے دار اور سماجی کردار مل کر ساری عمر دیتے ہیں۔

ایسا کرتے ہوئے شعوری طور پہ ہم خود کو پارسا سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن حق اور پارسائی پہ دوسرا بھی کھڑا ہوتا ہے۔ اسے یہاں تک پہنچانے میں اس کے اپنوں اور سماجیات کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایک طرف یہ صرف ڈراما ہے، دوسری طرف یہ جمہوریت اور آمریت کے دور کی تہذیبی عکاسی ہے۔ جمہوریت میں وفا اور بہادری ہے، آمریت میں عیاری اور خوف ہے، دونوں ادوار کے لباس، کردار، گفتار میں واضح فرق دکھائی دے رہا ہے۔

بشریٰ انصاری، ہانیہ عامر، فرحان سعید کی اداکاری اور گیٹ اپ پہ داد دینا لازم ہے، تینوں کی اداکاری کے جوہر کے بنا کہانی نے اتنا پرواز نہیں کرنا تھا۔ مصنف اسما ندیم ہیں، ڈائریکٹر وجاہت رؤف ہیں، آواز کا جادو ندیم شوکت نے جگایا ہے، شاعری صابر ظفر کی ہے اور ایکسپریس ٹی وی سے ڈراما نشر ہو رہا ہے۔

ایسے ڈرامے کم از کم ان بچوں کے غم کو زندگی کی ایک نارمل راہ دے رہے ہیں جو پیدا کہیں اور ہوتے ہیں اور ان کو پالتا کوئی اور ہے۔ ایسے موضوعات کو نارمل کرنا ہو گا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ