فلسطینی تنظیم حماس نے منگل کو اعلان کیا کہ یحییٰ سنوار گروپ کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ ہوں گے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں آیا جب گذشتہ ہفتے ایران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو مبینہ اسرائیلی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
غزہ میں حماس کے سب سے سینیئر رہنما یحییٰ سنوار ہیں۔
اسرائیل کو سب سے مطلوب شخص
اسرائیلی ڈیفنس فورس کے ترجمان ریئر ایڈمرل دانیال ہاغاری نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا، ’اس حملے کا فیصلہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔ اس لیے وہ اور ان کے ساتھی مردہ ہیں‘ یعنی اسرائیل انہیں مارنے پر تل گیا ہے۔
سنوار کے ساتھیوں میں محمد ضیف شامل ہیں جو حماس کے ملٹری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر ہیں۔
یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز (ای سی ایف آر) کے سینیئر پالیسی فیلو ہیو لوواٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خیال ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کے پیچھے ضیف کا دماغ تھا کیونکہ یہ ایک فوجی آپریشن تھا، لیکن سنوار ’ممکنہ طور پر اس گروپ کا حصہ تھے جس نے اس کی منصوبہ بندی کی۔‘
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ سنوار سات اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے غزہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حماس اسرائیل پر ایک شدید حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا تھا، ’ہم انشاء اللہ ایک طوفان کی شکل میں تم پر برسیں گے۔ ہم آپ پر لامتناہی راکٹ برسائیں گے، ہم فوجیوں کا لامحدود سیلاب آپ کے پاس آئیں گے، ہم اپنے لاکھوں لوگوں کے ساتھ آپ کے پاس آئیں گے۔‘
سنوار ویسے تو میڈیا سے دور رہے ہیں لیکن انہوں نے بعض اہم مواقعوں پر بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنسیں بھی منعقد کی ہیں۔
امریکی ادارے این پی آر کے نامہ نگار ڈینیئل ایسٹرن نے 2018 میں ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
ان کے مطابق سنوار نے کہا کہ وہ اپنی حکمتِ عملی اسرائیل کی جیلوں میں سیکھے گئے سبق کی مدد سے تشکیل دیتے ہیں۔ سنوار نے بتایا تھا کہ ’جیسے جیل میں قیدی اپنے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں، ویسے ہی فلسطینی غزہ کے حالات میں بہتری کے لیے اپنے جیلروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘
ایسٹرن کہتے ہیں کہ حماس کے مستقبل کا دارومدار بہت حد تک سنوار پر ہے، اس لیے اسرائیل، جس نے حماس کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، سنوار کو اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنوار کی ابتدائی زندگی کا احوال
سنوار کے خاندان کا تعلق فلسطینی گاؤں المجدل عسقلان سے ہے، جہاں سے اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کو بےدخل کر دیا تھا۔ اب یہ علاقہ اسرائیلی شہر عسقلان کا حصہ ہے۔
سنوار 1962 میں خان یونس میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر پانچ برس تھی کہ اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔
وہ اپنی کتاب ’کانٹے اور پھول‘ (الشوک والقرنفل) میں لکھتے ہیں کہ ’1967 کی سردیاں بہت بھاری گزریں، بہار آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہو گئی اور غزہ شہر کے مہاجر کیمپ کے کچے گھر پانی میں ڈوب گئے۔۔۔ سیلابی پانی ہمارے گھر میں داخل ہو گیا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت وہ گھر میں اپنے بڑے تین بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ موجود تھے جو سیلاب سے خوفزدہ ہو گئے۔
’میرے والد اور والدہ نے فرش گیلا ہونے سے پہلے ہمیں بازوؤں میں اٹھا لیا۔ میری ماں نے گھر میں پانی داخل ہونے سے پہلے بستر اٹھا لیا۔ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔
’رات کو میری ماں چھت کے نیچے ایلومینیم کے برتن رکھتی تھی تاکہ چھت سے ٹپکتی بوندیں ان میں گریں۔ میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا، تو پانی کی ٹپ ٹپ مجھے سنائی دیتی۔ جب برتن بھر جاتے تو میری ماں انہی خالی کر دیتی۔‘
نوجوانی ہی میں سنوار نے غزہ میں اخوان المسلمون کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کا نام 1987 کے آخر میں بدل کر حماس تحریک میں تبدیل ہو گیا۔
سنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور عربی زبان میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ اخوان المسلمون کے سٹوڈنٹ ونگ ’اسلامی بلاک‘ کے سربراہ بھی رہے۔
سنوار نے 1985 میں اخوان المسلمون کے سکیورٹی ونگ کی بنیاد رکھی، جسے ’المجد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔