برطانیہ کے وزیراعظم کیئر سٹارمر نے اتوار کو انتہائی دائیں بازو کے مظاہرین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ انگلینڈ میں 13 سال میں ہونے والے بدترین فسادات میں حصہ لینے پر ’پچھتائیں‘ گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’میں گارنٹی دیتا ہوں کہ آپ کو ان فسادات میں حصہ لینے پر پچھتاوا ہو گا۔
سٹارمر نے ایک ٹی وی خطاب میں کہا کہ ’چاہے براہ راست ہو یا وہ لوگ جو اس کارروائی کو آن لائن بڑھاوا دے رہے ہوں، وہ خود بھاگ جائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انتہائی دائیں بازو کی غنڈہ گردی‘ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
روئٹرز کے مطابق اس سے قبل ہفتے کو برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے کچھ حصوں میں مظاہروں کے پرتشدد ہونے کے بعد پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔
حکومت نے ان لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کا عزم ظاہر کیا ہے جو حکومت کے مطابق تین بچیوں کے المناک قتل کو افراتفری پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
برطانیہ کے شمال مغربی علاقے ساؤتھ پورٹ میں ڈانس کی کلاس میں چاقو سے کیے گئے حملے میں تین لڑکیوں کی موت کے بعد برطانیہ بھر کے قصبوں اور شہروں میں سینکڑوں تارکین وطن مخالف گروپوں کے پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔
تارکین وطن اور مسلمانوں کے مخالف گروپس نے تین لڑکیوں کے قتل کو موقعے کے طور پر لیا اور غلط معلومات پھیلائیں کہ حملے کا ملزم شدت پسند تارک وطن ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم برطانیہ میں پیدا ہوا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حملہ آور کا خاندان مسیحی ہے۔
ہفتے کو لیورپول، برسٹل، ہل اور سٹوک آن ٹرینٹ سمیت ملک بھر کے شہروں کے ساتھ ساتھ بلیک پول شہر میں پرتشدد افراتفری پھیل گئی۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ کم از کم 87 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ مانچسٹر اور بیلفاسٹ بھی بدامنی سے متاثر ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کے بیان میں کہا گیا کہ دکانوں اور کاروباری مراکز میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔ لیورپول میں لائبریری کو آگ لگا دی گئی۔ تشدد کے واقعات میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
وزیر داخلہ یویٹ کوپر نے ہفتے کی رات دیر گئے کہا کہ ’ہماری گلیوں میں مجرمانہ تشدد اور لوٹ مار کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
’پولیس کو اس بات کو یقینی بنانے میں میری مکمل حمایت حاصل ہے کہ مجرمانہ بدنظمی میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے۔‘
لڑکیوں کے قتل کے بعد جاری بدنظمی کے دوران ہفتے کو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ یہ مظاہرے ’انتہائی دائیں بازو کے دانستہ اقدامات کا نتیجہ ہیں جن میں ایسے افراد کا ایک گروپ شامل ہے جو درست انداز میں احتجاج کی بجائے مکمل طور پر تشدد پر تلا ہوا ہے۔‘
برطانیہ بھر میں آخری بار پرتشدد مظاہرے 2011 میں ہوئے تھے جب پولیس نے لندن میں ایک سیاہ فام شخص کو گولی مار دی تھی۔ واقعے کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے پیغامات کی بنیاد پر اتوار کو مزید مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی۔