وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے جمعرات کو کہا کہ ملک میں بہتری لانے کی بجائے (ایوانوں میں) پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی بات ہو رہی ہے۔
مصدق ملک نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا موازنہ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ سے کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی ملک چھوڑ دیں۔
’ایک جماعت کے کارکن مسلسل ملک کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ آپ نے ہمیشہ توڑنے اور جلانے کی بات سنی، کسی نے ایک پاکستان کی بات نہیں کی، پاکستان کو بنگلادیش بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ ہمارا ملک ہے جس پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ مہنگائی کی شرح پچھلے سال 38 فیصد سے اب 11 فیصد پر آچکی ہے، تمام لوگ بالخصوص نوجوان اور خواتین کے لیے مواقع فراہم کرنا ان کی حکومت کا ویژن ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے منگل کو کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں آنے والی حالیہ تبدیلی کو پاکستان اس کا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے دعا کی کہ ’بنگلہ دیشی عوام کا ترقی اور خوش حالی کا سفر جاری رہے۔‘
اس سے قبل منگل کو وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بنگلہ دیش میں حالیہ تبدیلی جو ایک پاپولر موومنٹ کے نتیجے میں آئی ہے، پاکستان اس کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے لکھا کہ ’دعا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان دو آزاد ریاستیں آزادی کی قدر کریں، معاشی خود مختاری حاصل کریں اور ایک آزاد اسلامی معاشرے کو فروغ دیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا تاریخ کا ایک لازوال رشتہ ہے۔ مسلم لیگ کا جنم بنگال میں ہوا۔ قرارداد پاکستان شیر بنگال نے 1940 میں لاہور میں پیش کی۔ جب آزادی سے قبل انتخابات ہوئے تو آج کے پاکستان میں تمام اینٹی مسلم لیگ حکومتیں بنی تو بنگال نے مسلم لیگ کا جھنڈا بلند رکھا اور مسلم لیگ کی حکومت بنی۔‘
خواجہ آصف نے کہا: ’پاکستان کے بیشتر خالق سیاست دان بنگالی تھے اور قائد اعظم کی قیادت میں آزادی کے قافلے کے رہنما بنے۔ جبکہ مغربی پاکستان سے حکمران انگریزوں کے ٹاؤٹ، بیووکریٹ اور جاگیردار گدی نشین تھے۔ ماسوائے چند کے مغربی پاکستان کے سیاست دان آخری وقت تک انگریزوں سے وفاداری نبھاتے رہے۔‘
جولائی میں بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے مظاہروں سے شروع ہونے والی بد امنی نے طول پکڑ لیا۔
یہ بد امنی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی، جس کے دوران صرف چند ہفتوں میں 300 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
پانچ اگست کو حسینہ واجد استعفیٰ دے کر انڈیا روانہ ہوگئیں جبکہ طلبہ رہنماؤں نے پارلیمنٹ تحلیل کرکے محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔