قدیم امریکی شہر کے غائب ہونے کی وجہ سائنسدانوں نے تلاش کرلی

اب تک ماہرین کا خیال تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث طویل خشک سالی اور فصلوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کے باعث قدیم شہر کاہوکیا کے رہائشیوں نے اس شہر کو ترک کر دیا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

موجودہ امریکی شہر سینٹ لوئس اسی مقام پر ہے جہاں کبھی دنیا کا سب سے بڑا قدیم شہر کاہوکیا واقع تھا (جو اینجلس/واشنگٹن یونیورسٹی)

ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ موجودہ امریکی شہر سینٹ لوئس جس مقام پر ہے وہاں کبھی دنیا کے سب سے بڑے قدیم شہروں میں سے ایک کاہوکیا ہوا کرتا تھا جو پہلے سے موجود معلومات کے برعکس 13ویں صدی کے آخر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اچانک غائب نہیں ہوا تھا۔

سائنسی جریدے دی ہولوسین میں شائع ہونے والے اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کولمبیا سے پہلے کے اس قدیم شہر کی آبادی 50 ہزار نفوس سے زیادہ تھی جہاں پیچیدہ سڑکوں کا نظام، عوامی مراکز اور یہاں تک کہ ایک فلکیاتی رصد گاہ بھی موجود تھی تاہم یہاں کے لوگوں نے اس شہر کو آہستہ آہستہ چھوڑ دیا کیونکہ وہ بہتر مواقع کی تلاش میں کہیں اور منتقل ہو گئے۔

اب تک ماہرین کا خیال تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث طویل خشک سالی اور فصلوں کی بڑے پیمانے پر تباہی کے باعث کاہوکیا کے رہائشیوں نے اس شہر کو ترک کر دیا تھا۔

تاہم سینٹ لوئس میں واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین کو نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کاہوکیا  کے لوگوں میں خود کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے مزاحمت اور ہنر موجود تھا لیکن ان کے شہر چھوڑنے کی دیگر وجوہات تھیں۔

نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے پودوں کے فوسلز پر رہ جانے والے کاربن ایٹمز سے اندازہ لگایا جو اس وقت بڑھے جب قدیم شہر کی آبادی ختم ہو گئی اور مڈویسٹ امریکی خطے میں خشک سالی عام تھی۔

خشک سالی کا مقابلہ کرنے والے پودے جیسے پریری گراس (ایک قسم کی جنگلی گھاس) اور مکئی کے پودوں نے کاہوکیا کے لوگوں کی سکواش (پیٹھے کی سبزی)، گوز فٹ (پتوں والی سبزی) اور سمپ ویڈ (پھلی دار سبزی) جیسی خوراک کے لیے کاشت کی گئی فصلوں کے مقابلے میں کاربن کو اپنے اندر اتنی زیادہ شرح سے شامل کیا کہ اس نے ان پر اپنے نشانات چھوڑ دیے۔

کاہوکیا کے آثار قدیمہ کے مقام پر کاربن ایٹمز کے نشانات کا تجزیہ کرکے سائنس دانوں نے پایا کہ خشک سالی کے دور میں اس علاقے میں اگنے والے پودوں کی اقسام میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی تھی۔

مطالعہ کی شریک مصنفہ نٹالی مولر نے کہا کہ ’ہم نے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا کہ پریری گراس کی جگہ کسی اور چیز نے لے لی ہو جو ہم ایک ایسے منظر نامے کے طور پر تصور کرتے جب فصلیں بڑے پیمانے پر تباہ ہو رہی ہوں۔‘

مطالعہ کے ایک اور مصنف کیٹلن رینکن نے کہا کہ ’یہ ممکن ہے کہ وہ واقعی خشک سالی کے اثرات کو محسوس نہ کر رہے ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین کو اب شبہ ہے کہ اس جدید معاشرے میں تقریباً یقینی طور پر اناج اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کو ذخیرہ کرنے کا ایک نظام موجود تھا جس کی وجہ سے خشک سالی کے اس دور میں یہ ان کی مدد کر سکتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ کولمبیا سے پہلے کے معاشرے نے مچھلی، پرندے، ہرن، جنگلی پھل اور گری دار میوے سمیت متنوع خوراک استعمال کرنا شروع کر دی تھی جس کی وجہ سے خوراک کے کچھ ذرائع غائب ہونے پر بھی ان کی غذائی ضروریات پوری ہوتی رہی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قدیم شہر کو ترک کرنا ایک بتدریج عمل تھا۔

جیسا کہ ڈاکٹر مولر کا ماننا ہے کہ ’میں ایسے منظر کا تصور نہیں کرتی جہاں ہزاروں لوگ اچانک شہر سے باہر نکل رہے ہوں۔ لوگ شاید قریبی رشتے بنانے یا مختلف مواقع تلاش کرنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔‘

ماہر آثار قدیمہ نے مزید کہا کہ ’حقیقت ممکنہ طور پر پیچیدہ ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق