کس ملک میں کیا چل رہا ہے؟ کون سا ملک کس ملک پر حملہ کرنے جا رہا ہے؟ یہ جاننے کے لیے جاسوسی اور نگرانی کے جدید ترین ٹولز، بگنگ ڈیوائسز اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس استعمال کیے جاتے ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک سادہ سا پیزا بھی آپ کو بتا سکتا ہے کہ دنیا میں کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے؟
امریکہ میں پیزا کی فروخت سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ اس تھیوری کو ’پیزا میٹر‘ کہا جاتا ہے جو 1990 میں شروع ہوئی۔
پیزا میٹر کو ایسے اشارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کب بین الاقوامی بحران کے دہانے پر ہے۔
یہ تھیوری وہ افسانہ ہے جو حال ہی میں اسرائیل پر ایران کے حملے کے نتیجے میں دوبارہ زندہ ہوا۔
14 اپریل 2024 کو ایکس پر کی گئی ایک پوسٹ میں پینٹاگون کے قریبی علاقے کا گوگل میپ اور پاپا جونز فرنچائز کے میٹر چارٹ کا سکرین شارٹ شیئر کیا گیا، جو عام دنوں سے کہیں زیادہ غیر معمولی طور پر انتہائی مصروف تھا اور یہ وہی دن تھے جب ایران نے اسرائیل پر 300 ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔
اگرچہ یہ ایک تھیوری ہے لیکن سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس تھیوری کے پیچھے کوئی پیچیدہ سائنس نہیں۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ جب دنیا کے کسی ملک میں کوئی تبدیلی آنے والی ہوتی ہے یا امریکی حکومت کسی معاملے پر اہم فیصلہ کرنے والی ہو تو فیصلہ سازی کے ذمہ دار اداروں کے عہدیداروں کو زیادہ سے زیادہ وقت دفتر میں گزارنا پڑتا ہے۔
یعنی کوئی وائٹ ہاؤس کا ملازم ہے تو اس کا کام بڑھ جائے گا۔ کوئی وزارت دفاع یعنی پینٹاگان میں کام کرتا ہے تو اس کے ڈیوٹی آورز (کام کے اوقات) میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور جب کام زیادہ ہوگا اور دفتری اوقات بھی زیادہ ہوں گے تو پھر لگے گی بھوک اور یہی وہ تھیوری ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ان بڑی بڑی سرکاری عمارتوں سے کچھ بڑا کیے جانے کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
اس تھیوری کو 90 کی دہائی میں پیز فرنچائز ڈومینوز کے مالک فرینک میکس نے ایجاد کر کے ’پیزا میٹر‘ کا نام دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق یکم اگست 1990 کو واشنگٹن ڈی سی میں ڈومینوز کے 60 پیزا سٹور تھے، جن کی فروخت عالمی ایونٹ کا اعلان ہونے سے 72 گھنٹے قبل آسمان کو چھونے لگی اور یہ وہی دن تھے جب عراق نے کویت پر حملہ کیا۔
اس بات کو ڈومینوز کے مالک نے محسوس کیا اور یہاں سے پیزا میٹر تھیوری کا آغاز ہوا۔
فرینک میکس نے شکاگو ٹریبیون کو بتایا کہ ’خلیج میں جاری جنگ کے دوران جہاں وائٹ ہاؤس میں 50 پیزا جاتے تھے، وہاں 125 سے 300 جانے لگے۔ بڑا اضافہ رات کے آخر میں ہوتا تھا، جہاں رات نو بجے کے بعد کوئی پیزا نہیں جاتا تھا وہاں وائٹ ہاؤس میں رات کے آرڈرز کی ڈیلیوری کے لیے ہمیں مزید سٹاف رکھنا پڑا۔‘
میکس نے جنوری 1991 میں لاس اینجلس ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’نیوز میڈیا ہمیشہ نہیں جانتا کہ کب کچھ بڑا ہونے والا ہے کیونکہ جب وہ بستر میں ہوتے ہیں تو پیزا ڈیلیور کرنے والے دو بجے بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔‘
فرینک کی اس تھیوری نے تاریخی واقعات جیسے 1896 میں فلپائن کا انقلاب، 1989 میں پاناما پر امریکی حملے اور 1990 میں ہونے والی خلیجی جنگوں کی کامیابی سے پیش گوئی کی۔
دسمبر 1998 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے مواخذے کی سماعتوں اور کوسوو جنگ کے دوران میکس ایک بار پھر خبروں کی زینت بنے، جب انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’یہ بے قابو ہو رہا ہے۔‘
ڈومینوز کے اعداد و شمار کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس ہفتے کے تین دنوں میں 31 ہزار ڈالر کے پیزا کا آرڈر دیا، جو عام دنوں سے تقریباً چھ گنا زیادہ تھا۔
اسی ہفتے کیپیٹل ہل نے 11 ہزار 600 ڈالر کا پیزا آرڈر کیا، جو کہ نومبر 1995 کے حکومتی شٹ ڈاؤن کے تین دن کے دوران آرڈر کیے جانے سے زیادہ اور تین دن کی عام مدت سے تقریباً سات گنا زیادہ تھا۔
تاہم فرینک کے پیزا میٹر پبلک کرنے کے بعد سے امریکی حکومت نے ایک ہی وینڈر سے پیزا کی بڑی مقدار کا آرڈر دینا بند کر دیا اور ساتھ ہی ’کسی راز کو راز ہی رکھنے‘ کے لیے ڈیلیوری کی بجائے اپنے لوگوں کو آرڈر لینے کے لیے بھیجنا بھی شروع کر دیا۔