بالی وڈ میں شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان کی سلطنت کو کوئی ہلا پائے گا؟
یہ سوال ان دنوں شدت کے ساتھ موضوع بحث ہے۔ تینوں خانز مقبولیت اور شہرت کے اس ہمالے پر بیٹھے ہیں جہاں گذشتہ کئی برسوں سے پہنچنے کی متعدد اداکاروں نے کوشش کی لیکن ان کا سفر کامیاب نہ رہا۔
کئی ہمت ہار کر اب گھروں میں بیٹھے ہیں لیکن شاہ رخ، عامر اور سلما ن خان کی حکمرانی پرکوئی فرق نہیں پڑا۔
آج اکشے کمار، رنویر سنگھ، رنبیر کپور، وکی کوشل، سیف علی خان، ورن دھون یا پھر آیوشمان کھرانہ سٹارز تو تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن پرستاروں کے دل ان کے لیے ویسے نہیں دھڑکتے جیسے خانز کے لیے دھڑکتے ہیں۔
نہ ہی ان اداکاروں کے گھروں کے باہر، شاہ رخ، سلمان یا عامر خان کی عالی شان رہائش گاہوں کی طرح عید تہوار پر چاہنے والوں کا ایسا ہجوم ہوتا ہے جیسے لگے کہ کوئی عظیم الشان عوامی جلسہ ہو رہا ہے۔
دور دراز علاقوں سے جنونی متوالے پرستار بس اپنے من پسند اداکار کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ بالی وڈ کے خانز کے مقابل کوئی نہیں بلکہ دور دور تک نہیں۔
پرستاروں میں بھی مقابلہ
شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان، تینوں کے فلم کیرئیر کم و بیش ایک ساتھ ہی شروع ہوئے۔ فلم نگری میں اداکاری کی جادوگری دکھاتے ہوئے تینوں کو لگ بھگ 35 سے 36 سال ہو چکے ہیں۔
اس عرصے میں ان تینوں کا فلم کیرئیر ناکامی کی شاہراہ سے بھی گزرا لیکن ان کی اداکاری، انداز اور پرستاروں کا حلقہ ایسا ہے کہ ہر ناکامی کے باوجود ان کی پسندیدگی کا گراف نیچے کی جانب نہیں گرتا۔
تینوں ہی عمر کی57 سے 58 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور اس عمر میں ہیروئنز کے ساتھ دل کھول کر رومانس بھی کرتے ہیں اور بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص بھی ہوتا ہے مگر کبھی بھی کوئی اس بات پر تنقید نہیں کرتا کہ اس ڈھلتی عمر کے باوجود ان کا یہ سب کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تینوں کے پرستاروں کا اپنا حلقہ اپنے اپنے محبوب اداکار کو دوسرے سے برتر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہوتا ہے۔
صرف پرستار ہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ میں موجود گروپس بھی اپنی خبروں، تجزیوں اور پروگراموں سے کچھ ایسا ہی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
حال ہی میں جب ’پٹھان‘ میں سلمان خان نے مہمان اداکار کے طور پر جھلک دکھائی تو سوشل میڈیا پر دبنگ خان کے چاہنے والے یہی باور کراتے رہے کہ مختصر سے کردار میں سلمان خان نے اپنی جاندار اداکاری سے شاہ رخ خان کو پس پردہ کردیا۔
جبکہ بالی وڈ کے بادشاہ کے مداحوں نے کچھ ایسا ہی دعویٰ ’ٹائیگر 3‘ کے لیے کیا جس میں شاہ رخ خان نے اپنی ہلکی سی جھلک دکھائی تھی۔
یعنی مقابلے بازی کی فضا صرف سلمان خان یا شاہ رخ خان کے درمیان ہی نہیں قائم بلکہ ان کے پرستاروں کا حال بھی یہی ہے۔
صرف اداکاری ہی نہیں فلاحی کام بھی
یہاں ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ کیا صرف اداکاری اور فلمیں ہی تینوں خانز کو اس مقام تک لائی ہیں؟
اس سلسلے میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ تینوں پردہ سیمیں پر اگر نظر نہیں آتے تو فلاحی اور سماجی کاموں میں نمایاں رہ کر بھی اپنے لیے پرستاروں کی تعداد بڑھاتے ہیں۔
سلمان خان کو ہی لے لیں جو مصوری کا شوق رکھتے ہیں۔ یہ فن پارے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہیں۔ دبنگ خان ان سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنی فلاحی تنظیم ’بیئنگ ہیومن فاؤنڈیشن‘ کے تحت ضرورت مندوں میں خرچ کرتے ہیں۔
سلمان خان تو اس اعتبار سے بھی انفرادیت رکھتے ہیں کہ وہ نوجوان اداکاروں یا فنون لطیفہ سے جڑے افراد کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیتے ہیں۔
یہاں تک کہ ان کی تخلیقات کے لیے بے دریغ سرمایہ بھی لگاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کے باڈی گارڈ کا بیٹا ہیرو بن کر آتا ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہوتی کیونکہ سب جانتے ہیں سلمان خان اپنے پروڈکشن ہاؤس سے نوجوانوں کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔
جیسے انہوں نے سنیل شیٹی اور ادتیہ پنجولی کے بیٹے سورج کے لیے ’ہیرو‘ بنائی۔
بات کی جائے عامر خان کی تو وہ نجی اور حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر مختلف عوامی شعور اجاگر کرنے والی مہم کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔
اسی طرح وہ فلم سازی کے میدان میں بھی نوجوانوں کو بھرپور مواقع دینے میں کنجوسی نہیں دکھاتے۔ جہاں تک بات شاہ رخ خان کی ہے وہ بھی ’میر فاؤنڈیشن‘ کے تحت سماجی کاموں میں نمایاں رہتے ہیں۔
انڈین پریمیئر لیگ میں ان کی فرنچائز ٹیم اس بار کی فاتح ہے جس کے ذریعے وہ نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے میں پیچھے نہیں رہتے۔
پھر بیگم گوری خان کے ساتھ مل کر فلمیں بنانے میں بھی شاہ رخ خان کا نام رہتا ہے لیکن سلمان خان اور عامر خان کے برعکس ان فلموں میں شاہ رخ خان زیادہ تر خود ہیرو بن کر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود شاہ رخ خان بلاشبہ بالی وڈ کے بادشاہ کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔
پرستاروں کو ’سرپرائز‘ دینے کی عادت
فلمی تجزیہ کاروں کے مطابق بالی وڈ کے خانز ہر کچھ عرصے بعد پرستاروں کو ہی نہیں اپنے حریف اداکاروں کو فلموں کی زبردست کامیابی کے ذریعے سرپرائز دینے سے چونکتے نہیں۔
شاہ رخ خان کو ہی لے لیں، ڈیڑھ سال پہلے ان کی دو تین فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔
پھر بیٹے آریان کی گرفتاری کے بعد وہ مزید تنازعات میں گھر گئے لیکن اس کے بعد ان کی فلموں پٹھان، جوان اور پھر ڈنکی کی کھڑکی توڑ کامیابی نے انہیں دوبارہ اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں وہ پہلے تھے۔
عامر خان تو سال دو سال میں ایک فلم میں کام کرنے کے عادی ہیں لیکن اس عرصے کے دوران ان کا پروڈکشن ہاؤس کئی چبھتے ہوئے موضوعات کو چن کر ان پر فلمیں بناتا رہتا ہے جیسے رواں سال ’لاپتہ لیڈیز‘ بنا کر خواتین کو بااختیار اور خود مختار ہونے کے پیغام کے ساتھ نیا حوصلہ بھی دیا۔
ان تینوں کی مقبولیت اور شہرت کا یہ منہ بولتا ثبوت نہیں کہ بھارتی دولت مند تاجر مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی میں سلمان، عامر اور شاہ رخ خان کی موجودگی ہی اس تقریب کو موضوع بحث بنا گئی۔
تینوں جب سٹیج پر آئے تو اس کے بعد کئی دلچسپ میمز بھی بنیں۔ سلمان خان اور شاہ رخ خان تو ایک ہی فلم میں میں چھوٹے بڑے کردار نبھا چکے ہیں۔
دونوں نے کسی نہ کسی کی فلم میں بطور مہمان اداکار بھی اپنی رونمائی کرائی لیکن فلم بین تو اس تخلیق کا انتظار کررہے ہیں کہ جب یہ تینوں کسی ایک ہی فلم میں شامل ہوں گے۔
اس سلسلے میں مکیش امبانی کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی فلم کے لیے سرمایہ لگائیں تو یقینی طور پر یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے کیونکہ جب وہ سٹیج پر تینوں کو لاسکتے ہیں تو فلم میں یہ کام کیسے ممکن نہیں ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرحال اب شاہ رخ خان ہوں یا عامر خان، بیک سیٹ پر بیٹھ کر اپنی نسل کو اس چکا چوند کرنے والی فلم نگری سے جوڑ رہے ہیں۔
لیکن یہ سوال جس کا جواب ممکن ہے سلمان خان ہی خود دے سکیں کہ وہ کب سہرے کے پھول کھلائیں گے؟ اور کب وہ دوسرے کے بچوں کو سٹارز بنانے کے بجائے اپنے بچوں کے لیے یہ کام کررہے ہوں گے بس اسی کا انتظار ہے۔
متنازع فیصلوں پر معنی خیز خاموشی
بالی وڈ میں معاوضوں کی دوڑ میں یہ تینوں ایک دوسرے سے کبھی آگے تو کبھی پیچھے رہتے ہیں۔ شاہ رخ خان، عامر اور سلمان خان فلاحی، سماجی اور فلمی امور میں بھی کچھ نئی مثالیں قائم کرنے کی دھن میں رہتے ہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تینوں کئی اہم اور توجہ طلب موضوعات یا پھر بھارتی حکومت کے متنازع فیصلوں پر رائے زنی سے جان بوجھ کر اجتناب برتتے ہیں۔
بالخصوص ایسے فیصلے جن کا براہ راست تعلق بھارتی مسلمانوں سے ہوتا ہے جو بھارتی سیکولر تشخص کے لیے خطرناک بھی ہوتے ہیں۔
ان معاملات پر تینوں خانز کی معنی خیز خاموشی پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
ایک تاثر یہی ہے کہ پرستاروں کے وسیع حلقے کی ناراضگی کے خوف سے ہی تینوں خانز ان فیصلوں اور اقدامات پر لب کشائی کرنے کے بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کو زیاد ہ بہتر سمجھتے ہیں۔