کیا ایران نے اسرائیل کو جواب دینے کا فیصلہ ملتوی کر دیا ہے؟

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اس قتل کا بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی اور اب تک 19 اگست آگیا ہے اب تک کوئی جوابی نہ کرکے دنیا کو ابہام کا شکار کیا ہوا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی سوموار کو تہران میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں بات کر رہے ہیں (ارنا)

ایرانی دارالحکومت تہران میں 31 جولائی کو حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد سے دنیا شدید مخمصے کا شکار کیا ہوا ہے کہ ایران اس کا جواب کب اور کیسے دے گا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ پر ایک تحریر میں مسعود الزاہد کا کہنا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اس قتل کا بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی اور اب تک 19 اگست آگیا ہے اب تک کوئی جوابی کارروائی نہ کرکے دنیا کو ابہام کا شکار کیا ہوا ہے۔

ارنا کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے سوموار کو کہا ہے کہ سرکاری مہمان کے طور پر ہنیہ کے قتل پر ایران کا ردعمل اور غزہ میں جنگ بندی مذاکرات دوالگ الگ معاملات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے سب سے مضبوط اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی حامی تھے اور ہیں اور ہم اس سمت میں کوشش جاری رکھیں گے۔‘

دو ہفتوں سے زیادہ عرصے کے دوران ایرانی فوجی اور سیاسی حکام نے بارہا اسرائیل کو بیانات کی حد تک سخت جواب دیا ہے۔ ’ممکنہ ایرانی حملے‘ کے نتیجے میں تشویش بڑھنے اور خطے کو مکمل جنگ کی دھکیلے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

علی خامنہ ای اپنی دھمکی میں واضح تھے۔ انہوں نے اپنے خون کا بدلہ لینے کو ایک فرض قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان کے بعد سے اسرائیل نے کسی کارروائی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تیاریاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

اس سلسلے میں ایرانی صحافی کیان شریفی نے امریکی فارسی زبان کے ریڈیو ’فردا‘ کے لیے ایک تجزیاتی مضمون میں کہا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں اسرائیل پر ایران کے حملوں کو ’آسان‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان توقعات کی موجودگی میں اس بارے میں سوشل میڈیا پر اضطراب اور خوف پھیل گیا ہے۔

تہران سے ملنے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی سیاسی، فوجی اور مذہبی اداروں میں ہنیہ کے قتل کے بعد کارروائی کی ضرورت پر عام اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

البتہ تہران کو یورپ اور عرب دنیا دونوں کی جانب سے بڑی تعداد میں پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ  وہ اس وقت پیچھے ہٹ جائے اور براہ راست حملہ نہ کرے کیونکہ دنیا کوئی بھی بڑی جنگ لڑنا نہیں چاہتی۔

ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پیششکیان انتقام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ وہ ایرانی سپریم رہنما اور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔

ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ خلیج اور بحیرہ احمر کے علاقوں اور بحیرہ روم میں امریکی فوجی سرگرمیوں کی روزانہ نگرانی کی جارہی ہے۔

تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی سٹڈیز میں ایرانی امور کے ایک سینیئر محقق راز زیمت کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت حال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ’اسرائیل کو سسپنس کی حالت میں دیکھا جارہا ہے اور ان حالات میں اسرائیل بھاری معاشی اور نفسیاتی قیمت چکا رہا ہے۔ تاہم یہ توقع ایک دو دھاری تلوار ہے کیونکہ ایرانی حکومت اور خطے میں اس کے ایجنٹوں کو بھی اس سے نقصان ہو رہا ہے۔‘

ریڈیو فردا نے بحرین میں قائم کنسلٹنسی لبیک انٹرنیشنل کے سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مائیکل ہورووٹز کے حوالے سے کہا کہ اس صورت حال کے منفی اثرات بشمول شہری دفاع پر دباؤ، مسلح افواج کی تحریک اور اقتصادی اخراجات صرف اسرائیل تک محدود نہیں رہیں گے۔

تجزیہ کاروں اور ماہرین کا خیال ہے کہ ایران نفسیاتی نتائج سے فائدہ اٹھانے کے لیے حملے کو ملتوی کر رہا ہے اور یہ ایک بہانہ اور جان بوجھ کر حکمت عملی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت کے اندر ممکنہ اسرائیلی امریکی جوابی ردعمل اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کا اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال جوابی حملے میں تاخیر اور اس سلسلے میں تہران کی ہچکچاہٹ کی وضاحت کر رہا ہے۔

راز زیمت کے خیال میں ایرانی حکومت کو ایک مشکل اور پیچیدہ انتخاب کا سامنا ہے۔ اگرچہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور ایرانی پاسداران انقلاب اسرائیل کے خلاف ایران کی مزاحمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم حکومت کے کچھ دوسرے حصوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل پر بڑا حملہ ایران کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔

لہٰذا اگر تہران نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا جواب دینے کے بارے میں فیصلہ کیا ہے تو بھی لبنانی حزب اللہ اور علاقائی پراکسیوں اور اتحادیوں کے نیٹ ورک کے دیگر ارکان کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت ہوگی۔ جسے ایران کے سیاسی ادب کے مطابق مزاحمت کا محور کہا جاتا ہے اور اس کی تیاری کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے۔

دوسرا عنصر جو ایران کے فیصلے پر اثرانداز ہو سکتا ہے وہ خطے میں امریکی فوجی موجودگی ہے۔ امریکی فوج اس سال 12 اپریل کو اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے غیر معمولی ایرانی حملے سے پہلے کے دنوں سے زیادہ مضبوط ہے۔

تہران نے واضح طور پر مغربی طاقتوں کی تحمل اور کشیدگی سے بچنے کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کا جواب دینا اس کا جائز حق ہے۔

ایک تجزیہ کار کا ماننا ہے کہ سٹرٹیجک صبر کا نظریہ وہ ہے جو سپریم لیڈر خامنہ ای کے ساتھ قریبی طور پر جڑا ہوا ہے۔  انتظار پر مجبور کرنے پر ہر کسی کو پریشان رکھنا ان کے خیال میں ایران کو اپنے آپ میں جزوی فتح فراہم کرتی ہے۔

ان کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ انتظار کے دوران سب سے بڑا خطرہ کسی ایک طرف سے غلط اندازہ لگایا جانا بھی ہوسکتا ہے جو خطے کو بڑے پیمانے پر جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

فؤاد شكر کا قتل: نئی تفصیلات

گذشتہ ماہ 30 جولائی کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی نواحی علاقے 'ضاحیہ' میں ایک رہائشی عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اس کارروائی میں حزب اللہ کا سینئر رہنما فؤاد شكر مارے گئے تھے۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ہلاکت کی اس کارروائی میں حزب اللہ کے اندرونی نیٹ ورک میں در اندازی کے علاوہ ایک ٹیلی فون کال بھی شامل رہی جس نے فؤاد کو اس عمارت کی ساتویں منزل پر پہنچا دیا۔ وہ اسی عمارت میں رہتے اور کام کرتے تھے۔

امریکی اخبار نے کہا کہ مقتول حزب اللہ کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت تھا تاہم اس نے ایسی زندگی گزاری کہ تقریبا نظروں سے اوجھل رہا۔ فؤاد کا چہرہ اس حد تک نامعلوم تھا کہ اس کے مرنے کے بعد لبنانی میڈیا نے فؤاد کی جعلی تصاویر نشر کر دیں۔

اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فؤاد نے اپنی زندگی کا آخری دن ضاحیہ میں واقع اس عمارت کی دوسری منزل پر اپنے دفتر میں گزارا۔ وہ اسی عمارت کی ساتویں منزل پر سکونت پذیر تھا تا کہ بہت زیادہ نقل و حرکت سے گریز کیا جا سکے۔ اسرائیلی فضائی حملے میں اس عمارت کو بم باری کا نشانہ بنایا گیا۔

فؤاد شکر لبنانی دار الحکومت بیروت میں امریکی میرینز کی بیرک میں دھماکے کے بعد چالیس برس تک امریکہ سے چھپا رہا۔ امریکہ کے مطابق فؤاد نے اس کارروائی کی منصوبہ بندی میں معاونت کی تھی۔ دھماکے میں 241 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔

امریکی اخبار کے مطابق فؤاد لبنانی تنظیم حزب اللہ کے بانیوں میں سے تھا۔ وہ طویل عرسے سے تنظیم کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کا قابل اعتماد دوست تھا۔ گذشتہ دس ماہ سے فؤاد اسرائیل کے ساتھ سرحد پار بڑھتی ہوئی شدید جھڑپوں کی قیادت کر رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق حسن نصر اللہ نے بتایا کہ فؤاد شکر نے ہلاکت سے محض چند گھنٹے پہلے حزب اللہ کے بانی سے بات چیت کی تھی۔ حزب اللہ کے ذرائع نے امریکی اخبار کو بتایا کہ فؤاد کو ایک شخص کی جانب سے فون کال موصول ہوئی جس میں اس نے کہا کہ وہ اس عمارت میں آئے گا جہاں فؤاد رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد 30 جولائی کو مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے اسرائیل نے اس جگہ پر بمباری کر دی۔ حملے میں فؤاد شکر، اس کی بیوی، دو خواتین اور دو بچے جا سے گئے۔

اخبار نے حزب اللہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ فؤاد شکر سے ساتویں منزل پر جانے کی درخواست کی گئی تا کہ اسرائیل اسے آسانی سے بمباری کا نشانہ بنا سکے۔ یہ درخواست شاید اس شخص کی جانب سے کی گئی جس نے شاید حزب اللہ کے داخلی رابطہ نیٹ ورک میں در اندازی کی۔

اخبار نے ان ہی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حزب اللہ اور ایران واقعے کے حوالے سے انٹیلی جنس ناکامی کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان دونوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے دفاعی نظام پر قابو پانے کے لیے زیادہ جدید ہیکنگ ٹکنالوجی اور آلات کا استعمال کیا۔

حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے حزب اللہ کے ایک رہنما کو نشانہ بنایا ہے جو شام میں مقبوضہ گولان میں واقع علاقے مجدل شمس پر حملے کا ذمے دار تھا۔

فؤاد شکر کا نام امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ واشنگٹن نے فؤاد شکر عُرف 'الحاج محسن' کے بارے میں معلومات دینے پر 50 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم رکھی تھی۔

فؤاد شکر عسکری امور کے لیے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کا سینیئر مشیر تھا۔

امریکہ کے مطابق فؤاد نے شام میں اپوزیشن فورسز کے خلاف فوجی آپریشن میں صدر بشار کی فورسز اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کی مدد کی تھی۔

واشنگٹن کے مطابق فؤاد حزب اللہ کے مقتول سینیئر کمانڈر عماد مغنیہ کا قریبی دوست تھا۔ اس نے 23 اکتوبر 1983 کو بیروت میں امریکی میرین کے بیرکوں کو دھماکے سے اڑانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ کارروائی میں امریکی فوج کے 241 اہل کار ہلاک اور 128 زخمی ہو گئے تھے۔

ستمبر 2019 میں امریکی وزارت خارجہ نے فؤاد کو سرکاری طور پر عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اس سے قبل جولائی 2015 میں امریکی وزارت خزانہ نے بھی ایسا ہی اقدام کیا تھا۔

محمود عباس کا دورہ غزہ

ادھر فلسطینی خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ نے بتایا ہے کہ فلسطینی قیادت نے صدر محمود عباس اور فلسطینی قیادت کے ارکان کی غزہ کی پٹی روانگی کی تیاری کے لیے دنیا بھر میں اپنی نقل و حرکت اور رابطے شروع کر دیے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ صدر محمود عباس اور فلسطینی قیادت کے ارکان کے غزہ کی پٹی کے دورے کا مقصد نسل کشی کے شکار فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے۔

محمود عباس کا دورہ غزہ ریاست فلسطین اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے دائرہ اختیارمیں ہے اور فلسطینی ریاست کے پورے علاقے کی ذمہ داری اور قومی اتحاد کی بحالی کے لیے کام کررہے ہیں۔

خبر ایجنسی نے مزید کہا کہ ’اس سلسلے میں اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان، عرب اورمسلمان ، عرب ممالک ،او آئی سی، یورپی اور افریقی یونین سے اس سلسلے میں بات چیت کی گئی ہے۔ دنیا کے دیگر اہم ممالک اور طاقتیں اس قدم کی کامیابی کو یقینی بنانے اور تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے اسرائیل کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔‘

دوسری جانب اسرائیلی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ہم فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو غزہ کی پٹی جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

اسرائیلی میڈیا رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ عباس کا غزہ کا دورہ ’مستقبل قریب میں ہونے کا امکان نہیں ہے‘۔

صدر عباس نے ترک پارلیمنٹ سےخطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطینی قیادت کے تمام ارکان کے ساتھ غزہ کی پٹی جائیں گے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ وہاں اپنی آمد کو یقینی بنائیں۔

انہوں نےکہا کہ ’ہم نے اسرائیل کے منصوبوں کا راستہ روکنے کے لیے غزہ جانے کا فیصلہ کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا