ڈی سی پنجگور کے قتل میں ملوث تین دہشت گرد قتل: فوج

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھنے والے تین شدت پسند مارے گئے جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔

ذاکر بلوچ 12 اگست 2024 کو عسکریت پسندوں کے حملے میں قتل ہو گئے تھے (مینا مجید بلوچ/ایکس)

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق بلوچستان کے ضلع مستونگ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی میں تین ’دہشت گرد‘ قتل اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

منگل کو جاری کیے جانے والے بیان میں آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کارروائی کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تعلق رکھنے والے تین شدت پسند مارے گئے جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔

بیان کے مطابق: ’یہ دہشت گرد علاقے میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے اور پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر علی کی 12 اگست 2024 کو شہادت کے بھی ذمہ دار ہیں۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو سکیورٹی فورسز کو ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر علی بلوچ کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو سراہا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’ملک میں دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کو پنجگور کے ڈی سی کے قاتلوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا کوئی موقع نہیں دیا جائے گا۔‘

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس لعنت کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔ پوری قوم ملک سے دہشت گردی کے خاتمے تک سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس سے قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے جمعرات کو کہا تھا کہ انٹیلی جنس معلومات اور شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ کو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قتل کیا۔

ذاکر علی بلوچ کون تھے؟

کوئٹہ کے صحافی گہرام بلوچ کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی کمشنر ذاکر علی بلوچ کو 12 اگست 2024 کو مغرب کے وقت کوئٹہ سے پنجگور بذریعہ سڑک سفر کرتے ہوئے کوئٹہ سے تقریبا 65 کلومیٹر کے فاصلے پر کھڈ کوچہ، مستونگ کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

ذاکر بلوچ بلوچستان میں ایک ملنسار، ایمان دار اور خوش مزاج آفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔

انہوں نے میٹرک مقامی نجی سکول سے کیا اور اس کے بعد گورنمنٹ عطا شاد ڈگری کالج  سے ایف ایس سی پہلی پوزیشن میں پاس کی۔

اعلی تعلیم ملک کی سب بڑے انجینیئرنگ یونیورسٹیوں میں سے ایک یو ای ٹی، لاہور سے حاصل کی جہاں سے ذاکر علی بلوچ نے پٹرولیم اینڈ گیس میں بی ایس کی ذگری حاصل کی۔

وہ کالج اور جامعہ کے دوران  ترقی پسند، روشن خیال اور قوم پرست تحریکوں کے لٹریچرز کا کا مطالعہ کرتے رہے۔

سول سروس کا سفر

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذاکر علی نے یو ای ٹی لاہور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سول سروس کی تیاری شروع کی اور بالآخر بلوچستان پبلک سروس کمیشن (پی سی ایس) اسسٹنٹ کمشنر کی کیٹگری میں ان کی تعیناتی ہوئی۔

انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا اور 2017 میں  سول سروس میں آنے کے بعد وہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بطور سول سروس اپنی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔

ذاکر بلوچ  کے ساتھی اور سابق ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر جمیل احمد بلوچ کہتے ہیں کہ ’وہ ایک بہترین افسر اور ایک غیر معمولی انسان تھے، وہ ناگہانی طور پر ہم سے بچھڑ گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ذاکر اپنے علمی خیالات، محنت اور صلاحیتوں کی وجہ سے بلوچ نوجوان افسروں اور سول سروس میں نئے آنے والوں کے لیے بھی متاثر کن شخصیت  تھے، نوجوانوں میں ان کے بےشمار چاہنے والے تھے۔

’مجھے یاد ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات  کراچی میں باہمی دوستوں کے ساتھ ہوئی وہ ان دنوں  وہ اپنے سنہرے خواب کو لے کر اپنے کیریئر کا آغاز کر رہے تھے۔

ذاکر بلوچ کی موت کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’آج بلوچستان ایک روشن ستارے ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ کو بی ایل اے کے دہشت گرد گروہوں نے مستونگ میں بے دردی سے شہید کر دیا۔ بلوچ قوم اور روایات کا پرچار کرنے والے دہشت گردوں کے ہاتھوں سے عام بلوچ بھی محفوظ نہیں۔ ہم ذاکر بلوچ سمیت تمام شہدا کا جواب لیں گے۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنی ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ذاکر بلوچ  اور ستارہ شبیر کا قتل بلوچستان میں جاری کشت و خون کا وہ سلسلہ ہے جو کہ گذشتہ ساتھ دہائیوں سے جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان