شادی شدہ خواتین اپنے میکے کو امی کا گھر کہتی ہیں۔ ان کے بچے بھی اس گھر کو نانی کا گھر کہتے ہیں۔ اس گھر میں ان کی اور ان کے بچوں کی موجیں ہوتی ہیں۔ وہ جو چاہے کریں۔ جو چاہے کھائیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
گرمیوں کی چھٹیاں ہوں یا سردیوں کی، کبھی کوئی لانگ ویک اینڈ آ جائے یا ایسے ہی موسم اچھا ہو جائے وہ بچوں کے ساتھ اپنے میکے جانے کا منصوبہ بنا لیتی ہیں۔
سامان ایک طرف رکھا، بچے چھوٹے بہن بھائیوں کو تھمائے اور خود لمبی تان کر سو گئیں۔ اٹھیں تو دنیا جہان کی باتیں کرنے لگیں۔ باتوں سے دل بھرا تو ٹی وی لگا لیا اور خوب فرصت سے دیکھا۔
شام ہوئی تو بازار چلی گئیں۔ وہاں سے آئیں تو اپنی پسند کا کھانا کھایا۔ رات میں بھوک لگی تو باہر سے کچھ منگوا لیا یا باورچی خانے میں گھس کر ہلکا پھلکا سا کوئی سنیک بنا لیا۔
وہ اپنی امی کے گھر ہر وہ کام کرتی ہیں جو وہ سسرال میں کرتے ہوئے جھجھکتی ہیں۔
ہر گھر کا اپنا ماحول ہوتا ہے۔ نہیں بھی ہوتا تو بہو کے لیے بن جاتا ہے۔ اس پر کئی طرح کی پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ کچھ واضح ہوتی ہیں اور کچھ واضح نہیں ہوتیں لیکن اسے اس گھر کو اپنا گھر بنانے کے لیے ان تمام پابندیوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
میکے میں وہ آزاد ہوتی ہیں۔ جو چاہے کریں۔ جو چاہیں بولیں۔
اور یہ آزادی انہیں ان کے والد کی وجہ سے ملتی ہے۔ گھر بےشک ان کی امی کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اس گھر کو ان کے والد نے بنایا ہوتا ہے۔
اس گھر میں انہیں تحفظ، آزادی اور سکون کا احساس دینے والے ان کے والد ہوتے ہیں۔ ان کے گھر انہیں ہر وہ کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔
رات گئے تک جاگیں، صبح دیر تک سوئیں، جو کھانے کا دل ہو بس ایک بار کہہ دیں، وہ گھر آ جائے گا، رات کو تین بجے باورچی خانے میں جائیں یا شام کے پانچ بجے، کوئی کچھ نہیں کہتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کسی کو فون کرنا ہو یا کسی دوست سے ملاقات کرنی ہو، سب کام اسی گھر میں ہوتے ہیں، بغیر کسی پریشانی کے۔
وہ گھر واحد جگہ ہوتی ہے جہاں وہ کبھی بھی کسی بھی حالت میں آ سکتی ہیں اور جیسے چاہے رہ سکتی ہیں۔ ان سے بدلے میں نہ کچھ مانگا جاتا ہے نہ انہیں وہاں رہنا جتایا جاتا ہے۔
ایک عورت کی زندگی میں اس کا باپ وہ واحد مرد ہوتا ہے جو بغیر کسی غرض کے اس کے لیے سب کچھ کرتا ہے۔ اس کی ہر بات مانتا ہے۔ اس کی ہر ضد کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے اور اسے زمانے کے سرد اور گرم سے بچاتا ہے۔
تاہم، یہی باپ اپنی بیٹی کی وجہ سے معاشرے کے آگے خود کو کمزور محسوس کرتا ہے۔ جہاں تک اس کی طاقت ہوتی ہے وہ اسے محفوظ رکھتا ہے لیکن جہاں اس کا بس نہیں چل سکتا وہاں وہ بےبس ہو جاتا ہے۔
اسے اپنی بیٹی دل پر پتھر رکھ کر رخصت کرنی پڑتی ہے۔ وہ جتنی بھی جانچ پڑتال کرے، اگلے گھر کے حالات بیٹی کے جانے کے بعد ہی پتہ چلتے ہیں۔ وہ اس کی بیٹی کو اچھا رکھیں تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ وہ اس کی بیٹی کو دکھ دیں تو اس کا دل چھلنی ہو جاتا ہے۔
بیٹی کبھی اچانک گھر آئے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کے چہرے پر خوشی دیکھ کر اس کا دل سکون میں آ جاتا ہے۔
میں نے پچھلے سال اگست میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ڈیفینس کے لیے جمع کروایا تھا۔ مجھے سب سے پہلے پانچ بلائنڈ ریویوز پاس کرنے تھے۔ ایک ایک کر کے دن گزر رہے تھے اور مجھے میرے بلائنڈ ریویز کے نتائج پتہ نہیں چل رہے تھے۔ کچھ دن بعد میرا پری ڈیفینس تھا۔ میں تمام بلائنڈ ریویوز کے نتائج کے بغیر پری ڈیفینس نہیں دے سکتی تھی۔
مجھے ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ میرا مقالہ دو پروفیسر ریویو کرنے کے لیے قبول کر چکے ہیں جبکہ تین پروفیسروں نے ابھی تک اسے قبول ہی نہیں کیا ہے۔
اب پتہ لگتا ہے کہ دعا زہرا کے والد نے انہیں واپس لانے کے لیے اتنی جدوجہد کیوں کی۔ انہوں نے ہار کیوں نہ مان لی، بیٹی کو دس صلواتیں سنا کر اپنی زندگی میں مگن کیوں نہیں ہو گئے؟
میں بہت پریشان ہوئی۔ ڈیپارٹمنٹ نے میرا کیس گریجویشن سکول کو بھیجا۔ انہوں نے میرا مقالہ تین پروفیسرز کو بلائنڈ ریویو کے لیے بھیجا۔ مجھے پری ڈیفینس سے دو دن قبل بلائنڈ ریویوز کے تمام نتائج موصول ہوئے تھے۔
میں اس قدر دباؤ میں تھی کہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
اسی حالت میں بابا کو فون کیا۔ انہوں نے کال اٹھائی تو میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔ وہ پریشان ہو گئے۔ ڈرتے ہوئے پوچھا کیا ہوا۔ میں نے کہا پی ایچ ڈی ہو گئی۔
تب ان کی سانس میں سانس آیا۔ ڈھیروں دعائیں دیں۔ میں نے اس دن پہلی بار ان کی آواز میں اپنے لیے ڈر محسوس کیا تھا۔
اب پتہ لگتا ہے کہ دعا زہرا کے والد نے انہیں واپس لانے کے لیے اتنی جدوجہد کیوں کی۔ انہوں نے ہار کیوں نہ مان لی۔ بیٹی کو دس صلواتیں سنا کر اپنی زندگی میں مگن کیوں نہیں ہو گئے۔ باپ تھے۔ اپنی بیٹی سے دستبردار نہیں ہو سکتے تھے۔
ہر باپ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اولاد کے لیے باپ کی محبت کی بات کم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جہاں ماں کی محبت اور طاقت ختم ہوتی ہے وہاں سے باپ کی محبت اور طاقت شروع ہوتی ہے۔
اللہ سب کے سروں پر ان کے والد کا سایہ قائم رکھے۔ آمین۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
تحریم عظیم فری لانس صحافی اور کمیونیکیشن سٹریٹیجسٹ ہیں۔ انہوں نے کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا سے کمیونیکیشن سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے۔