چکوال کے صوبیدار عبدالخالق کے بارے میں بتانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کی دنیا کا تیز ترین ایتھلیٹ کون ہے؟
جمیکا کے یوسین بولٹ کو دنیا کا تیز ترین ایتھلیٹ قرار دیا جاتا ہے، جنہوں نے اولمپکس مقابلوں میں 100، 200 اور 4×100 میٹر کی دوڑ میں آٹھ سونے کے تمغے جیت کر عالمی ریکارڈ بنا رکھا ہے۔
100 میٹر کی دوڑ میں ان کا عالمی ریکارڈ جو آج بھی برقرار ہے انہوں نے 2009 میں 9.58 سیکنڈ میں بنایا تھا۔
پاکستان کے صوبیدار عبد الخالق نے آج سے 70 سال پہلے 1954 کے ایشیائی گیمز میں 100 میٹر کی دوڑ 10.6 سیکنڈ میں مکمل کر کے 1951 کے ایشیائی کھیلوں میں لیوی پینٹو کا 10.8 سیکنڈ کا ریکارڈ توڑ دیا تھا، یوں انہیں ایشیا کے تیز ترین انسان کا خطاب ملا۔
سوچیں تب وہ سہولیات اور تربیت میسر ہی نہیں تھی جو آج کے ایتھلیٹ کو میسر ہیں۔
صرف جوتوں کے معیار کو ہی دیکھ لیں تو اس وقت کے ایتھلیٹ کو میسر جوتوں اور آج کے جوتوں میں واضح فرق ہے۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اس زمانے میں 100 میٹر کا عالمی ریکارڈ 10.2 سیکنڈ تھا اور پہلی بار 10 سیکنڈ سے کم وقت یہ فاصلہ 1969 میں طے ہوا تھا۔
پھر بھی چکوال سے تعلق رکھنے والے اس ایتھلیٹ نے آنے والے سالوں میں ایسی حیران کن تاریخ رقم کی جس پر ناول لکھے جا سکتے ہیں اور فلمیں بن سکتی ہیں۔
کبڈی کا کھلاڑی جو ایتھلیٹ بن گیا
پوٹھوہار کو مارشل بیلٹ کہا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ ہو یا دوسری عالمی جنگ یا پھر اس کے بعد پاکستان اور انڈیا میں جنگیں، پوٹھوہار کے سپوتوں نے ہر جگہ بہادری کے ناقابلِ یقین جوہر دکھائے ہیں۔
عبدالخالق بھی چکوال کے ایک چھوٹے سے گاؤں جنڈ اعوان میں 1933 کو پیدا ہوئے۔
ان کے بیٹے محمد اعجاز ڈی جی پنجاب سپورٹس بورڈ راول پنڈی میں کوچ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد فوج کے کھیلوں کے شعبے کا ایک وفد چکوال گیا جس کا مقصد پیر پھلاہی کے مقام پر ہونے والے سالانہ کبڈی کے مقابلوں کو دیکھنا تھا۔
وفد کی نظر انتخاب جن پانچ لڑکوں پر پڑی ان میں میرے والد عبدالخالق بھی تھے جنہیں کبڈی کا شوق اپنے ماموں عباس علی سے ورثے میں ملا، جو علاقے کے بہت معروف کھلاڑی تھے۔
پاکستان فوج کے وفد نے انہیں اٹک آنے کا کرایہ دیا، جس کے چند دن بعد والد صاحب اٹک پہنچ گئے۔
یہاں مناسب تربیت اور سہولیات کی وجہ سے ان کی خداداد صلاحیتوں کو جلا ملنا شروع ہوئی اور وہ اگلے دو تین سالوں میں پاکستان کے نمبر ون ایتھلیٹ بن گئے۔
زخمی گھٹنے کے ساتھ عمر بھر کھیلے
فوج میں تربیت کے دوران عبدالخالق کا گھٹنا زخمی ہو گیا۔ انہیں ہسپتال داخل کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ ان کے گھٹنا کاٹنا پڑے گا اگر ایسا ہو جاتا تو پھر وہ عمر بھر دوڑ نہیں سکتے تھے۔
محمد اعجاز بتاتے ہیں کہ والد صاحب یہ نہیں چاہتے تھے اس لیے آپریشن سے پہلے ہسپتال کی کھڑکی سے کود کر بھاگ گئے۔
کچھ دیسی ٹوٹکوں کی وجہ سے گھٹنا کٹنے سے تو بچ گیا مگر اکثراس میں سوجن ہو جاتی تھی۔ اسی زخمی گھٹنے کے ساتھ وہ عمر بھر کھیلے۔
اگر ان کا گھٹنا ساتھ دیتا تو ان سے تیز ترین انسان دنیا میں شاید ہی کوئی ہوتا۔
’فلائنگ برڈ آف ایشیا‘ کا خطاب
پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1954 میں دہلی میں کھیلوں کے مقابلے ہوئے۔ ان میں سب سے دلچسپ مقابلہ پاکستان کے عبدالخالق اور انڈیا کے مکھن سنگھ اور لیوی پینٹو کے درمیان ہوا۔
مقابلوں سے پہلے پاکستانی ایتھلیٹ جس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے وہاں عبد الخالق کے کمرے میں ایک اشتہار پھینکا گیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ عبدالخالق مکھن سنگھ اور لیوی پینٹو کے پیروں کی خاک بھی نہیں۔
پینٹو پہلے ایشیائی کھیلوں منعقدہ 1951 دہلی میں 100 اور200 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغے جیت چکے تھے اس لیے انڈین تماشائیوں کا یہ دعوی بے محل بھی نہیں تھا۔
لیکن عبدالخالق کو یہ ادا پسند نہیں آئی۔ ان کے بیٹے محمد اعجاز کے بقول انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ انڈیا کا غرور دہلی کے میدان میں ہی خاک میں ملا دیں گے۔
اگرچہ والد صاحب سو میٹر کے کھلاڑی تھے مگر انہوں نے سو اور دو سو میٹر دونوں مقابلوں میں اپنے مخالفین مکھن سنگھ اور پینٹو کو پچھاڑ دیا۔
اس تقریب کے مہمانِ خصوصی انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو تھے جنہوں نے انہیں ’فلائنگ برڈ آف ایشیا‘ کا خطاب دیا۔
کھیلوں کی ڈپلومیسی، ملکھا سنگھ اور عبدالخالق
صدر ایوب کے دور میں 1960 میں انڈیا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان لاہور میں کھیلوں کے مقابلے کرائے گئے۔ ان میں ایران کے کھلاڑی بھی شامل تھے۔
ان مقابلوں میں تینوں ممالک سے سینکڑوں کھلاڑیوں نے حصہ لیا مگر وہ مقابلہ جس پر دونوں ملکوں کے عوام کی نظریں تھیں وہ انڈیا کے ملکھا سنگھ اور پاکستان کے عبدالخالق کے درمیان ہوا۔
ملکھا سنگھ ایشیائی اور کامن ویلتھ گیموں میں 400 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغے جیت چکے تھے اور عبد الخالق بھی سو میٹر کی دوڑ میں دو بار ایشیائی مقابلوں میں سونے کے تمغے جیت چکے تھے۔
پہلا تمغہ انہوں نے منیلا میں 1954 اور دوسرا 1958 میں ٹوکیو میں جیتا تھا۔ مقابلہ شروع ہوا تو ملکھا 200 میٹر کی دوڑ ایک سینڈ کی برتری سے جیت گئے۔
لیکن سو ضرب چار سو میٹر کی دوڑ پاکستانی ٹیم نے جیت لی جس میں عبدالخالق نے ملکھا سنگھ کو آواز لگا کر آخری راؤنڈ میں ہرایا۔
انہی مقابلوں میں صدر ایوب نے ملکھا کو ’فلائنگ سکھ‘ کا خطاب دیا تھا۔
عبدالخالق اولمپکس کیوں نہ جیت سکے؟
1956 میں آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں اولمپکس ہوئے تو عبدالخالق سیمی فائنل تک پہنچ گئے اور حتمی نتائج میں وہ ساتویں نمبر پر آئے۔
ان کے بیٹے اعجاز کہتے ہیں کہ پاکستان چونکہ نیا نیا ملک تھا، کھلاڑی اور کوچز سب اپنے اپنے تجربات سے گزر رہے تھے۔
عبدالخالق اس لیے نہیں ہارے تھے کہ ان میں کوئی کمی تھی بلکہ اس لیے ہارے کہ وہ ان عالمی مقابلوں میں یہ فیصلہ نہیں کر سکے تھے کہ انہیں کس وقت کس مقابلے کو اہمیت دینی ہے۔
ایک آسٹریلوی اخبار نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر عبدالخالق 200 اور 400 میٹر کی ریلے ریس میں حصہ نہ لیتے تو سو میٹر کی دوڑ میں ناقابل شکست ٹھہرتے۔
انہی اولمپکس میں ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے جرمنی کے ایک کلب نے انہیں دو لاکھ امریکی ڈالر کے معاہدے کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان فوج کے ملازم بھی ہیں اس لیے صرف پیسوں کی خاطر کسی اور طرف سے نہیں کھیل سکتے۔
یورپ کے ناقابل تسخیر کھلاڑی کا خطاب
جیسے آج انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ ہوتی ہے، ایسے ہی وہاں ایتھلیٹکس کے مقابلے بھی ہوتے تھے جن میں دنیا بھر کے اہم ایتھلیٹ شرکت کرتے تھے۔
اعجاز نے بتایا کہ ’1957 میں انگلینڈ میں ہونے والے مقابلوں میں عبدالخالق بھی شامل ہوئے۔ ان مقابلوں میں کہا گیا کہ جو ایتھلیٹ مسلسل 10 بار دوڑ جیتے گا اسے ’یورپ کے ناقابل ِتسخیر کھلاڑی‘ کا خطاب دیا جائے گا۔
’میرے والد نو بار مسلسل ریس جیت گئے۔ دسویں بار مقابلے میں وہ امریکی ایتھلیٹ بھی کود پڑا جسے دنیا کا سب سے تیز ترین آدمی کہا جاتا تھا۔
’میرے والد صاحب کو ساتھی کھلاڑیوں نے بڑا سمجھایا کہ تم اپنے گھٹنے کے زخمی ہونے کا بہانہ بنا لو اور مقابلہ نہ کرو تو ہماری عزت رہ جائے گی کیونکہ اس کا وقت میرے والد کے وقت سے بہتر تھا۔
’مگر میرے والد نے کہا کہ مقابلہ ضرور ہو گا۔ میرے والد کو یقین تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں یہاں میدان زیادہ بہتر ہیں اس لیے چند سیکنڈ کے فرق کو وہ بخوبی پورا کر لیں گے۔
ایسا ہی ہوا۔ مقابلے میں انہوں نے دنیا کے نمبر ون ایتھلیٹ کو شکست دے دی جس پر انہیں ’یورپ کے ناقابل ِ تسخیر کھلاڑی‘ کا خطاب دیا گیا۔‘
فلم ’بھاگ ملکھا بھاگ‘ میں عبدالخالق کا کردار
اعجاز نے بتایا کہ ملکھا سنگھ نے 2009 میں ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھ پر انڈیا میں ایک فلم بن رہی ہے جس میں آپ کے والد کے کردار کو بھی دکھانا ہے آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟
میں نے اجازت دے دی۔ یہ فلم 2013 میں ریلیز ہوئی جو انڈیا کی ان بڑی فلموں میں شمار کی گئی جنہوں نے ایک ارب روپے سے زیادہ کا بزنس کیا۔ یہ دراصل انڈین قوم کا ایک بھولے ہوئے ہیرو کو خراجِ تحسین تھا۔
جب اعجاز سے پوچھا گیا کہ یہاں ان کے والد پر بھی کسی نے ایسے ہی کام کے بارے میں سوچا؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’بھاگ ملکھا بھاگ‘ نے ملکھا سنگھ کے ساتھ ان کے والد عبدالخالق کو بھی ایک بار پھر زندہ کر دیا۔
ایک پاکستانی فلم کمپنی عبدالخالق پر ایسی ہی فلم بنانا چاہ رہی ہے۔ سکرپٹ لکھا جا چکا ہے۔ ہمارے گاؤں سمیت مختلف لوکیشنز کے دورے کر کے شوٹنگ کے مقامات منتخب کیے جا رہے ہیں۔
عبدالخالق کو اندرا گاندھی کی رہائی کی پیشکش
عبدالخالق 1971 کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ میں اودھم پور کے محاذ پر جنگی قیدی بنائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب انڈین کرنل کرشن لال کو معلوم ہوا کہ جنگی قیدیوں میں عبدالخالق بھی شامل ہے جس نے ملکھا سنگھ سے مقابلہ کیا تھا تو اس نے انہیں ہر ممکن سہولت کی آفر کی جسے عبدالخالق نے ٹھکرا دیا اور کہا کہ ان کے جو زخمی ساتھی ہیں ان کا علاج معالجہ ہو جائے تو یہی سب سے بڑی خدمت ہو گی۔
عبدالخالق کے کہنے پر پاکستانی فوجیوں کو علاج معالجے کی سہولیات دی گئیں۔ جب یہ بات انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو معلوم ہوئی تو انہوں نے عبد الخالق کو رہائی کی پیشکش کر دی۔
عبدالخالق نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور کہا کہ وہ پاکستان فوج کا حصہ ہیں اور سب کے ساتھ ہی رہائی قبول کریں گے اکیلے نہیں۔
عبدالخالق کو حکومت سے کیا مراعات ملیں؟
اعجاز نے بتایا کہ 1958 میں صدر ایوب نے انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ 70 کی دہائی میں انہیں حکومت نے دو مربع زمین الاٹ کی جس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔
انہیں دو بار حکومت نے زمین دینے کی آفر کے لیے خطوط لکھے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک دن میری دادی نے پوچھا، ’یہ زمین تم نے خود مانگی ہے؟‘
میرے والد نے جواب دیا، ’نہیں۔‘
دادی نے کہا، ’جب حکومت تمہیں مانگے بغیر دے رہی ہے تو لے لو، اولاد کے کام آئے گی۔‘
چنانچہ جب تیسری بار حکومت کا خط آیا تو انہوں نے وہ جگہ لے لی۔ زمین سندھ میں دی گئی والد صاحب زمین لینے کے بعد واپس آئے تو کہا کہ زمین تو مل گئی مگر وہ اسے بیچ آئے ہیں کیونکہ جہاں زمین الاٹ ہوئی وہ جگہ میری اولاد کے لیے محفوظ نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنی اولاد کی جان کی حفاظت مقدم رکھی اور زمین بیچ دی۔
اعجاز نے بتایا کہ ان کے والد کی وفات کے بعد 1988 میں راول پنڈی میں پاکستان فوج نے ان کی والدہ کو آٹھ مرلے کا مکان بھی دیا تھا۔