افغان طالبان کے ساتھ تصاویر، امریکی خاتون ٹک ٹاکر تنقید کی زد میں

گینیدا مادو کے نام سے مشہور صومالی نژاد امریکی انفلوئنسر نے کابل، بامیان اور دیگر افغان شہروں میں روایتی افغان برقعے میں اپنی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔

صومالی نژاد امریکی انفلوئنسر ماریان عبدی نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا اور طالبان کے ساتھ تصاویر بنوائیں (ماریان عبدی/انسٹاگرام)

افغانستان کا دورہ کرنے اور طالبان جنگجوؤں کے ساتھ تصویریں بنانے والی سوشل میڈیا انفلوئنسر کو سخت گیر حکومت کے بارے میں اپنی پوسٹوں پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ ردعمل اس لیے سامنے آیا کیوں کہ طالبان نے ملک کی لاکھوں لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم، ملازمتوں اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

اپنے سوشل میڈیا چینلز پر گینیدا مادو کے نام سے مشہور صومالی نژاد امریکی انفلوئنسر ماریان عبدی کو کابل، بامیان اور دیگر افغان شہروں سے روایتی افغان برقعے میں ملبوس اپنی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

کئی افغان خواتین نے اس وقت طالبان کی جانب سے انہیں عوامی مقامات سے ہٹائے جانے کی نشاندہی کی جب وہ اپنی پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں افغانستان کو سیاحتی مقام کے طور متعارف کرا رہی تھیں۔

ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر کی ایکس پر ’وائرل 2024‘ ہیش ٹیگ اور ’میٹ ودھ طالبان‘ ٹائٹل کے ساتھ پوسٹ کی گئی ویڈیو میں سوشل میڈیا صارفین نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے طالبان سے پوچھا کہ انہوں نے خواتین کو سنگسار کیوں کیا اور ان پر سکولوں اور کالجوں پر پابندی کیوں لگائی؟

انسانی حقوق کی کارکن نیلوفر نعیمی نے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب افغان لڑکیاں اور خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، یہ بہت پریشان کن اور ناقابل قبول ہے کہ گینیدا مادو جیسا کوئی شخص افغانستان جا کر طالبان کے لیے لابنگ کرے۔‘

افغان خواتین کے مسائل پر انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ سرگرمی ان لاکھوں افغان خواتین کے مصائب اور درد کو نظر انداز کرتی ہے جنہیں طالبان کے دور حکومت میں جبر و ستم کا سامنا ہے۔‘

انفلوئنسر کی ویڈیوز میں طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کی سنگین حقیقت کو بھی دکھایا گیا کیونکہ ان کی ملک میں بنائی گئی ویڈیوز میں اکثر خواتین نظر نہیں آئیں۔

ماریان عبدی کو کابل کے بازاروں میں ٹہلتے ہوئے اور شہر میں گھومتے ہوئے دیکھا گیا لیکن ایک مرد سیاحتی گائیڈ کے ساتھ۔

ماریان کو سڑکوں اور بازاروں میں افغان مردوں کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہوئے بھی دیکھا گیا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلی سیاہ فام مسلمان خاتون ہیں جنہوں نے جنگ سے تباہ حال ملک کا سفر کیا۔

ایکس پر اپنے سوشل میڈیا بائیو میں ماریان نے کہا کہ وہ ’غلط طور پر پیش کیے گئے ممالک کی زمینی حقیقت کو تلاش کرنا اور شیئر کرنا پسند کرتی ہیں۔‘

یوٹیوب پر اپنی ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے طالبان جنگجوؤں سے ملاقات کی لیکن بات چیت ریکارڈ نہیں کی کیونکہ انہیں اس کی اجازت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت ’الجھن میں مبتلا اور خوف زدہ‘ تھیں۔

یوٹیوبر نے اپنی ویڈیو میں کہا: ’میں بہت تذذب اور الجھن کا شکار تھی کیوں کہ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے ان سے بات کرنے کی اجازت بھی دیں گے یا نہیں۔

’میں یہ گفتگو ریکارڈ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ مجھے اس اجازت نہیں دیں گے اور میری بیٹری ختم ہوگئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے؟ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ میں ایک غیر ملکی ہوں۔‘

’میں نے کہا کہ میں صومالی ہوں، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کسی مغربی ملک سے ہیں۔ میں نے کہا ہاں، میں امریکہ سے ہوں تو بھی انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔‘

ماریان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے طالبان سے پوچھا کہ افغان لڑکیوں اور خواتین کو چھٹی جماعت سے آگے پڑھنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی جس پر انہیں طالبان کے چہروں پر مختلف تاثرات والے ردعمل اور جوابات ملے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماریان نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے سوال پوچھنے سے پہلے طالبان سے اجازت بھی لی تاکہ باعزت طور پر بات ہو سکے۔

ماریان نے بتایا: ’ان کے منہ سے صرف ایک ہی جواب نکلا جو قابل فہم تھا وہ یہ کہ یہ ایک نیا ملک ہے جہاں نئی حکومت ہے اور چیزیں (وقت کے ساتھ) بدلیں گی کیوں کہ ہر چیز میں وقت لگتا ہے۔ میں نے کہا بس اتنا ہی تو انہوں نے کہا ہاں اتنا ہی۔‘

ماریان نے تبصروں کے خلاف اپنا دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر اٹھنے والے ردعمل پر یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے صرف یہ تصویر لوگوں کو دکھانے کے لیے لی تھی کہ وہ بتا سکیں کہ وہ طالبان جنگجوؤں سے ملی تھیں۔

ان کے بقول: ’میرا صرف یہ کہنا ہے کہ یہ محض میرا تجربہ ہے، یہ وہی ہے جو میں نے دیکھا اور یہ کہ انہوں نے میرے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔ میں نے درحقیقت لوگوں کو یہ دکھانے کے لیے (طالبان کے ساتھ) تصویر لی تھی کہ میں یہ بتا سکوں کہ میں ان سے ملی ہوں اور ہماری کیا بات چیت ہوئی۔

’میں خواتین کے تمام حقوق کی وکالت کرتی ہوں اور میں ایک دن (افغان) خواتین کو تعلیم حاصل کرتے اور کام کرتے دیکھنا پسند کروں گی۔ براہ کرم ہر چیز کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نہ لیں۔ صرف ایک تصویر پر میرے بارے میں رائے مت کریں۔‘

ایک اور صارف نے ایکس پر ان سے پوچھا: ’طالبان کے ساتھ اچھی یادیں۔۔ لیکن کیا آپ نے افغان لڑکیوں کو سنگسار کرنے کے بارے میں پوچھا تھا یا آپ صرف ان کے ساتھ تصاویر بنانے میں مصروف تھیں؟‘

عالمی تنظیم ’پراسیکیوٹرز فار پراسیکیوٹرز‘میں افغان ایڈوائزری کمیٹی کی شریک چیئرپرسن فریشتا رضابان نے اس حوالے سے کہا: ’بیرون ملک آرام سے رہتے ہوئے طالبان کی جابرانہ حکومت کی حمایت کرنے والا کوئی بھی اس مسئلہ کا حصہ ہے۔

’وہ اپنے گھروں میں پھنسی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کے مصائب سے آنکھیں چرا رہے ہیں جن کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو چھین لیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس طرح کی ظالمانہ حکومت کی تشہیر کرنا ناقابل معافی ہے۔ خاموش رہنے یا شریک بننے کی بجائے، ہم سب کو اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل