جرمنی کے شہر سولنگن میں میلے کے دوران ایک شخص نے چاقو کے وار سے تین افراد کو مار ڈالا جبکہ آٹھ دیگر کو زخمی کر دیا۔
مقامی پولیس تاحال حملہ آور کو گرفتار نہ کر سکی اور اس نے حملہ آور کی تلاش کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔
یہ حملہ جمعے کی رات نو بج کر 40 منٹ کے قریب ہوا، جس کے بعد پولیس نے شہر کا مرکز بند کر دیا اور متاثرین اور گواہوں سے پوچھ گچھ کی۔ زخمیوں میں پانچ کی حالت ’تشویش ناک‘ بتائی جا رہی ہے۔
علاقے میں خصوصی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں اور ایک ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتا رہا۔
قریب کے شہر ڈوسلڈورف کی پولیس کے مطابق نامعلوم حملہ آور نے رات 9:40 بجے کے قریب حملہ کیا۔ پولیس نے عینی شاہدین سے تصاویر، ویڈیوز، یا کوئی اور معلومات فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔
عینی شاہد لارس بریٹزکے نے، جو میلے کے سٹیج کے قریب تھے، سولنگر ٹاگے بلاٹ اخبار کو بتایا کہ وہ حملے کے مقام سے چند میٹر کے فاصلے پر تھے اور ’گلوکار کے چہرے کے تاثر سے سمجھ گئے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔‘
بریٹزکے نے بتایا کہ ’اور پھر مجھ سے ایک میٹر کے فاصلے پر، ایک شخص گرا جو شروع میں لگا کہ نشے میں تھا۔
یہ میلہ سولنگن کی 650ویں سالگرہ کی تقریبات کا حصہ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سولنگن کے میئر ٹم اولیور کرزباخ نے ’صدمے، خوف اور شدید غم‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ شہر اب خوشی منانے کی بجائے سوگ منا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ’ہم سب مل کر اپنے شہر کی سالگرہ منانا چاہتے تھے لیکن اب ہمیں مرنے والوں اور زخمیوں پر سوگ منانا ہے۔‘
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر اعلیٰ ہینڈرک ووست نے واقعے کو ’سفاکانہ اور بے مقصد تشدد‘ قرار دیا اور متاثرین اور ان کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
تین روزہ ’فیسٹیول آف ڈائیورسٹی‘ میں 75 ہزار شرکا کی توقع کی جا رہی تھی۔ حملے کے بعد منتظمین نے تقریبات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لوگ میلے کے پہلے دن جمعے کو شہر میں جمع ہوئے تھے۔ گذشتہ 12 ماہ کے دوران جرمنی میں چاقو سے حملوں کا ایک سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے، جس پر وزیر داخلہ نینسی فیزر نے چاقو کے جرائم کے خلاف سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔
مئی میں شہر مانہائم میں ایک انتہائی دائیں بازو کی ریلی کے دوران چاقو کے حملے میں ایک پولیس افسر مارا گیا اور پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔