ایک سفارتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے طالبان حکومت کے ترجمان کے حوالے سے اس پابندی کی خبر کے بعد سفارتی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو تصدیق کی کہ 'رچرڈ بینیٹ کو اس فیصلے سے کئی ماہ قبل آگاہ کیا گیا تھا کہ انہیں افغانستان واپس آنے پر خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔‘
بینیٹ نے یکم مئی کو اس عہدے پر دو سال پورے کیے۔
اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، طالبان حکام نے اسلامی قانون کی سخت تشریح پر مبنی قوانین نافذ کیے ہیں۔
خواتین کو ان پابندیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے جنہیں اقوام متحدہ نے 'صنفی امتیاز' قرار دیا ہے جس کی وجہ سے وہ عوامی زندگی سے دور ہیں۔
طالبان کی حکومت کو کسی بھی دوسری حکومت کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ خواتین پر اس کی پابندیاں ہیں۔
طالبان حکام نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے ان کی پالیسیوں پر تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق جب یہ پابندی بظاہر چند ماہ قبل عائد کی گئی تھی تو طالبان حکومت نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کا مسئلہ انسانی حقوق کی نگرانی اور رپورٹنگ کا نہیں بلکہ ذاتی طور پر بینیٹ سے ہے۔
اس سے قبل منگل کو افغانستان کے طلوع نیوز نے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے کہا تھا کہ بینیٹ پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کیونکہ انہیں افغانستان میں پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے تعینات کیا گیا تھا اور وہ ایسے شخص نہیں ہیں جن کے الفاظ پر وہ بھروسہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے چھوٹے موٹے مسائل اٹھائے اور پروپیگنڈے کے لیے انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
حالیہ مہینوں میں بینیٹ نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے بارے میں سخت بیانات جاری کیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے جب طالبان حکام افغانستان پر اپنے قبضے کی تیسری سالگرہ منا رہے تھے، بینیٹ نے اقوام متحدہ کے 29 دیگر ماہرین کے ساتھ ایک بیان میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ ’اصل حکام یا ان کی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کو معمول نہ بنائے۔‘
جون کے اواخر میں، بینیٹ نے قطر میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں انسانی حقوق کے امور اور افغان خواتین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو نہ بلانے کے فیصلے کی مذمت کی تھی ۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کا امدادی مشن (یو این اے ایم اے) ملک میں انسانی حقوق کی نگرانی اور رپورٹنگ کا کام کرتا ہے۔
21 ہزار موسیقی کے آلات تباہ
افغان طالبان حکام کے مطابق وزارت نے گذشتہ ایک برس کے دوران جبری شادیوں کے 300 سے زائد کیسز اور خواتین کی فروخت کے تقریباً 300 کیسز کو کامیابی سے روکا گیا ہے۔ مزید برآں، وزارت کی ثالثی سے 1000 سے زائد دشمنیاں دوستی میں تبدیل ہو چکی ہیں، اور 700 سے زائد معاملات میں، جو خواتین اپنے وراثت کے حقوق سے محروم تھیں، وہ اپنے حق وراثت سے مستفید ہو سکیں۔
ادھر منصوبہ بندی اور قانون سازی کے ڈائریکٹر محب اللہ مخلس نے بتایا ہے کہ طالبان نے گذشتہ ایک سال کے دران 21,000 سے زائد آلات موسیقی کو تباہ کر دیا اور تقریباً 1000 تعویذ سازوں اور جادوگروں کو گرفتار کر کے عدالتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزارت کو 9,808 شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں سے 5,486 کو حل کیا گیا ہے۔ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث 13,391 افراد میں سے 7,204 کو 24 گھنٹے اور 4,737 دیگر کو تادیبی سزا کے طور پر 72 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا تھا۔‘
وزارت نے یہ بھی اطلاع دی کہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث 13,000 سے زیادہ افراد کو اصلاحی اقدام کے طور پر سزا دی گئی، اور 1,000 سے زیادہ کو عدالتی حکام کے حوالے کیا گیا۔
وزارت امن و امان کے حکام نے یہ معلومات منگل کو انفارمیشن اینڈ میڈیا سنٹر میں ’امارتی اداروں کی ایک سالہ کامیابیاں‘ نامی پروگرام میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتائی۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ کار میں خواتین کے حقوق فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اس پریس کانفرنس میں طالبان حکومت کی وزارت قانون اور امتناع کے حکام نے قانونی اور اصولی دستاویزات کی تیاری، سول اور عسکری تنظیموں اور عوامی مقامات پر ’عقائد اور منافرت کی ممانعت‘ کے قیام اور فائلنگ پر تبادلہ خیال کیا۔ شکایات کے 191 نمبر کو فعال کرنا، اس کے محتسب کے لیے صلاحیت سازی کے پروگرام بنانا اور قواعد و ضوابط کے نفاذ کی نگرانی کرنا اس وزارت کی گزشتہ سال کی اہم سرگرمیاں ہیں۔
طالبان کی حکومت موسیقی کو ’اخلاقی فساد‘ کا سبب اور حرام سمجھتی ہے۔
ان کے افراد کی بعض علاقوں میں مقامی فنکاروں کے ساتھ بدتمیزی کرنے اور ان کے آلات موسیقی کو توڑنے اور جلانے کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں، جس پر سوشل میڈیا پر ردعمل سامنے آیا ہے۔