ڈچ پارلیمینٹیرین گیٹ وائلڈر نے تحریک لبیک پاکستان اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قائدین سعد رضوی اور مولانا اشرف آصف جلالی کے خلاف ایمسٹرڈیم ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے جس کی سماعت پیر ستمبر کو ایمسٹرڈیم ہائی کورٹ میں ہوگی۔
گیٹ وائلڈرز نے اپنی حالیہ ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’اگلے ہفتے پیر کو ایمسٹرڈیم ہائی کورٹ میں تاریخی مقدمے کی سماعت ہو گی۔‘
نیدرلینڈز میں چلائے جانے والے اس مقدمے میں سعد رضوی اور اشرف آصف جلالی پر الزام ہے کہ انہوں نے ’نیدرلینڈز اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو توہین رسالت کے الزام میں گیٹ وائلڈر کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ ڈچ پارلیمینٹیرین گیٹ وائلڈر نے 2018 میں ایک کارٹون مقابلے کا منصوبہ بنا کر توہین کی‘۔
گیٹ وائلڈر نے مزید لکھا کہ ’یہ پہلا موقع ہے جب پاکستانی مولویوں اور سیاسی رہنماؤں کو ہالینڈ میں کسی ڈچ رکن پارلیمنٹ کے خلاف فتویٰ جاری کرنے پر مقدمے کا سامنا ہو گا۔ میں پیر کو حاضر ہو کر عدالت سے خطاب کروں گا۔‘
گیٹ وائلڈرز ایک ڈچ سیاستدان ہیں جنہوں نے 2006 میں دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی فار فریڈم کی بنیاد رکھی اور اس کی قیادت کی۔ وہ ایوان نمائندگان میں پارٹی کے رہنما بھی ہیں، اور 1998 سے پارلیمانی نشست پر فائز ہیں۔
گیٹ وائلڈرز اپنی دائیں بازو کی پاپولزم، امیگریشن مخالف، اسلام اور یوروسپٹیسزم کی مخالفت اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے خیالات نے انہیں ہالینڈ اور بیرون ملک ایک متنازع شخصیت بنا دیا ہے۔ 2004 کے بعد سے، انہیں مسلح پولیس نے ہر وقت تحفظ فراہم کیا ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے تحریک لبیک پاکستان سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے فی الحال اس پر اپنا موقف دینے سے گریز کیا ہے۔ جبکہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مولانا اشرف آصف جلالی سے بھی متعدد بار رابطہ کیا گیا، لیکن ان کی طرف سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
کیا اس مقدمے کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟
اس حوالے سے بیریسٹر شہزاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک تو نیدرلینڈز کی عدالت کے دائرہ اختیار میں یہ نہیں ہے کہ وہ کسی پاکستانی شہری پر مقدمہ چلائے اور دوسرا یہ کہ ابھی جرم ہوا نہیں ہے تو یہ مقدمہ کیسے چلایا جا سکتا ہے، وہ بھی کسی کی غیر حاضری میں۔‘
بیرسٹر شہزاد خان کے مطابق، اس کو ہمارے ملک میں یک طرفہ پروسیڈنگ کہتے ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے بات کر سکتی ہیں کہ آپ کے شہری نے ہمارے شہری کو دھمکی دی ہے، اس لیے اس بات کی یقین دہانی کریں کہ ہمارے شہری کو آپ کے شہری سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں دھمکی کا عنصر ہے، یہ جرم ہے لیکن اسے عدالت میں شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ ’اس کیس میں یہ کیسے ممکن ہوگا؟ یہاں تو نیدرلینڈز میں ایک مقدمہ درج ہوا، وہ بھی پاکستانی شہری کے خلاف، تو وہ تو عدالت کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہے۔ اس عدالت کو وہ پراسیکیوٹ نہیں کر سکتی، اس کیس میں پہلا مسئلہ ہی یہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کسی کو سزا تب دے سکتے ہیں جب دونوں پارٹیز عدالت میں موجود ہوں۔ اس کیس میں جن پر الزام لگایا گیا ہے، وہ بھی اپنے دلائل عدالت میں پیش کریں۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے، اس لیے کوئی سزا بھی نہیں ہو سکتی۔
ایڈوکیٹ احمر مجید نے اس کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس کیس میں ملزم وہاں موجود نہیں ہیں، اس لیے ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چلا کر سزا سنائی جا سکتی ہے لیکن پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان کوئی ایکسٹراڈیشن (حوالگی) کا معاہدہ نہیں ہے کہ اگر وہاں سزا ہو جاتی ہے تو پاکستان بین الاقوامی قوانین کے تحت پابند ہو کہ ان دونوں افراد کو گرفتار کر کے نیدرلینڈز کے حوالے کر دے۔
’اگر معاہدہ ہوتا تو بھی ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہاں مذہب کا معاملہ ہے۔ البتہ اگر ان کو سزا سنا دی جاتی ہے اور انٹرپول کے ذریعے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جاتے ہیں، تو ان کے بین الاقوامی سفر کرنے میں مسائل ضرور آئیں گے، جیسے یورپ، امریکہ وغیرہ میں یہ لوگ نہیں جا سکیں گے۔‘