چوہا شیپ ہونڈا سٹی سے گوگو کی گی گی تک

ڈولفن پہ آ جائیں، یہ نام ویسے آج تک رکھے گئے ناموں میں سب سے خوبصورت ہے اور صرف پاکستان میں نہیں، جہاں جہاں ہونڈا سوک 1991 سے چھیانوے تک بکی، وہاں اس کی باریک ہیڈلائٹس اور لمبے پتلے نفیس بونٹ کی وجہ سے ڈولفن کہلائی۔

اوئے چوا شیپ میں تیل کتنا ڈلتا ہے پوچھ ذرا استاد سے؟

میں ایک معزز آدمی تھا، اس وقت میری گاڑی کا ماڈل کوئی نو سال ہی پرانا تھا اور جیسے ہر بندے کی ایک آدھی سواری لاڈلی ہوتی ہے، یہ میری دل جان کار تھی۔ اپنی طرف سے میں اسے تھوڑی بہت سپورٹس لُک والی گاڑی بھی سمجھتا تھا، ساری بات چھوڑیں اس ماڈل سے مجھے اتنا عشق تھا کہ وہ والی جب تھوڑی خراب ہو گئی تو بیچ کے دوبارہ اسی ماڈل کی ویسی ہی گاڑی لیے بیٹھا ہوں آج بھی لیکن یار، چوہا شیپ؟

ہونڈا سٹی 2005 کیسا سہانا سا نام ہے کسی بھی عاشق کے لیے، مگر تین ہفتے ہوئے تھے وہ گاڑی لیے جب اسے پہلی مرتبہ ’چوا شیپ‘ کے نام سے پکارا گیا۔ ایسی تحقیر؟ ایسی ذلت؟ قسم سے یار نام بگاڑنا ہے تو استری کے جیسی کہہ لو، مچھلی بول دو، سیدھا ہی چوا شیپ؟ اگر وہ چوہے جیسی ہے تو یہ جو Prius تھی سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن، عجیب سی پشت والی گاڑی، اسے کبھی کوئی نام کیوں نہیں دیا گیا؟ یا وہ خالص جاپانی تھی، لوکل میڈ نہیں تھی؟

کچھ ہی دن بعد لیکن میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی۔ سروس سٹیشن پہ کھڑا تھا کہ پیچھے سے آوازنک آئی، ’یار وہ مولانا صاحب کا دنبہ صبح سے کھڑا ہوا ہے، اب اس کی ڈیٹیلنگ شروع کرو۔‘

2001 سے تقریباً 2007 تک جو نائنتھ جنریشن کرولا پاکستان میں آئی اُسے اٹھی ہوئی ڈگی اور تھوڑے موٹے نین نقش کی وجہ سے دنبے کا نام دیا گیا۔ کون یہ نام دیتا ہے، پہلی بار کس نے اس گاڑی کو دنبہ کہا ہو گا، اس راز پہ تاریخ کا پردہ پڑا ہوا ہے لیکن یار جب یہ نام سنا تو بس اپنے گلے شکوے ختم ہو گئے دنیا سے، تب میں نے یہ جانا کہ نام کسی گاڑی کو تب دیا جاتا ہے جب وہ ماڈل کامیاب ہو اور کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ سڑکوں پہ اچھا خاصا نظر آنا شروع ہو گیا ہو۔

ڈولفن پہ آ جائیں، یہ نام ویسے آج تک رکھے گئے ناموں میں سب سے خوبصورت ہے اور صرف پاکستان میں نہیں، جہاں جہاں ہونڈا سوک 1991 سے چھیانوے تک بکی، وہاں وہاں اس کی باریک ہیڈلائٹس اور لمبے پتلے نفیس بونٹ کی وجہ سے اسے ڈولفن کہا گیا۔ پیٹرول کا کباڑہ تھا لیکن موڈیفیکیشن اس گاڑی کی آج تک بچے کرواتے ہیں اور قسمت سے اگر کوئی صاف ستھری مل جائے تو بلاشبہ کلیکڑز آئٹم سمجھی جاتی ہے۔

2001 میں جب ہونڈا سوک کا نیا ماڈل آیا تو باقی سب ٹھیک تھا لیکن اگلی بتی اس کی بس نارمل قسم کی تھی۔ 2004 میں اس کا انٹیرئیر بدلا گیا اور 2005 میں ہونڈا نے بطور فیس لفٹ سامنے سے ہیڈ لائٹ، بمپر اور فینڈرز میں تھوڑی سی تبدیلی کی۔ معمولی سا یہ ردوبدل اس گاڑی کو ساری عمر کے لیے ایگل آئی کا نام دے گیا۔ جولائی 2004 تک یہ گاڑی کیٹ آئی کے نام سے مشہور تھی لیکن سامنے والی بتی تھوڑی سی لمبی اور سرمگیں کرنے کی وجہ سے 2005 میں اس کو ایگل آئی کا خطاب ملا اور آج تک یہ گاڑی ماڈل نام کی بجائے اسی نک نیم سے جانی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہونڈا سوک میں کامیاب ترین ماڈل ری بورن تھا اور پاکستان میں یہ واحد نام تھا جو خود ہی کمپنی نے گاڑی کو دیا۔ یہ گاڑی کسی جانور کے نام سے مشہور ہونے کی بجائے اپنے اصل نام سے مشہور ہوئی۔ ٹو ڈی کے بعد مشہوری میں سمجھیں یہی گاڑی تھی جو گاؤں دیہات تک اپنے اسی نام سے پہچانی گئی۔ ٹو ڈی ویسے 2.0D یعنی 2000 بلکہ دراصل 1975 سی سی ڈیزل گاڑی تھی ٹویوٹا کی جو پہلے ٹو او ڈی کہلائی اور بعد میں ٹو ڈی کے نام سے اتنی مشہور ہوئی کہ آج بھی کہیں ٹو ڈی سنتا ہوں تو ساتھ بوسکی کا شلوار قمیص اور سگار پرفیوم کی مہک بھی آتی ہے۔

ٹو ڈی 1992 سے 2002 تک پاکستان میں آنے والی کرولا کا ڈیزل ویرئنٹ تھا۔ انڈس موٹرز نے چونکہ پاکستان میں یہ ماڈل متعارف کروایا تھا اس لیے اس کے باقی پیٹرول ویرئنٹس آج تک ’کرولا انڈس‘ کے نام سے ہی مشہور ہیں۔ یہ بھی اپنے وقت کی کامیاب ترین گاڑی تھی۔ قد تھوڑا کم تھا تو سڑک پہ جم کے چلتی تھی، پائیداری ایسی کہ اُس زمانے کی جو مرضی گاڑی آج سڑک پہ دیکھ لیں، انڈس اب بھی اپنی پوری چال میں نظر آتی ہے اور شاید اسی وجہ سے آج تک اس گاڑی کی مارکیٹ نہیں ٹوٹی۔ کلفٹن سے خیبر تک یہ گاڑی آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی اور دیوانہ وار گاہک آج بھی اس کے منہ مانگے دام بھرتے دکھائی دیں گے۔

ڈڈو ایک ایسا نام ہے جو عموماً گاڑی کا مذاق اڑانے کے لیے دیا جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی واضح وجہ مینڈک کی آنکھوں جیسی باہر کو نکلی ہوئی گول ہیڈ لائٹس ہیں، آپ فورڈ کے پرانے ماڈلوں  پہ جائیں، فوکسی کو دیکھ لیں یا دس پندرہ سال پرانی نسان مارچ دیکھیں، ان سب کو اپنے وقتوں میں کسی نہ کسی سے ڈڈو کا خطاب ضرور ملا ہو گا۔

پتہ نہیں کیوں لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ گاڑیوں کو نام دینے کا یہ چلن ختم ہوتا جا رہا ہے، عجیب دور ہے، ہر گاڑی خود اپنے ہی نام سے مشہور ہوئی جا رہی ہے، بلکہ یہ جو آج کل 10th جنریشن سوک ایکس ہے، اس کا نام لفافہ رکھ بھی دیا تھا ہمارے گرو نے لیکن وہ تک مشہور نہیں ہوا۔

ریوو، پراڈو، لینڈ کروزر چلیں سمجھ میں آتی ہیں، امیروں کی گاڑیاں ہیں، یہ جو اتنی ساری چینی گاڑیاں آئی ہیں ان کے بھی کوئی نام نہیں رکھے کسی نے، کمال ہے، لیکن خیر ان کے نام خود اپنی ذات میں آئٹم ہیں اور گوگو کی گیگی ان سب میں نمبر ون ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ