انڈیا میں نام نہاد ’گاؤ رکشکوں‘ نے سکول میں زیر تعلیم ایک 18 سالہ لڑکے کا مویشیوں کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے شبے پر میلوں تک پیچھا کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا۔
یہ واقعہ 23 اگست کو انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ کے شہر فرید آباد میں پیش آیا۔ محض چند دن قبل ایک اور گاؤ رکشک گروپ نے ضلع چرکھی دادری میں ایک محنت کش کو گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں تشدد کر کے مار ڈالا تھا۔
انڈیا میں گائے کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور بہت سے ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ہندو مت انڈیا کی اکثریتی آبادی کا مذہب ہے۔ گاؤ رکھشا کے لیے کام کرنے والے گروپوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ان انڈین قوانین کو بزور نافذ کرتے ہیں جن کے تحت ملک میں مویشی ذبح کرنے اور بڑا گوشت کھانے پر پابندی ہے نیز یہ گروپ قانون کے نفاذ میں اکثر تشدد سے کام لیتے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں گائے کے متعدد ’محافظوں‘ پر تشدد سے کام لیتے ہوئے ماورائے عدالت سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ لوگ اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھگڑتے رہتے ہیں تاہم ان کی سرگرمیوں کو ان لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے جن کا ماننا ہے کہ وہ ہندو مذہب کا دفاع کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے 2014 میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ بننے کے بعد اقتدار میں آنے سے ان گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، مویشیوں کے سمگلروں کی تلاش میں نکلے گاؤ رکشکوں نے مبینہ طور پر آریان مشرا نامی طالب علم کی گاڑی کا تقریباً 18 میل (30 کلومیٹر) تک پیچھا کیا اور پھر فائرنگ کر دی۔
اس واقعے کے سلسلے میں گروپ کے پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزموں کی شناخت انیل کوشک، ورون، کرشنا، آدیش، اور سوربھ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ سمگلر علاقے میں بڑی رینالٹ ڈسٹر اور ٹویوٹا فورچیونر گاڑیوں میں سرگرم ہیں اور مویشی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مشرا اور ان کے دوست، ہرشیت اور شنکی، رینالٹ ڈسٹر گاڑی میں تھے جب ان کو ان لوگوں نے روکا۔ بتایا جاتا ہے کہ گاڑی میں سوار افراد کا پہلے ہی ایک اور شخص کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا، اور وہ گاؤ رکشکوں کو اپنے مخالفین سمجھ کر فرار ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا ٹوڈے نے رپورٹ کیا ہے کہ اس طرح گاؤ رکشکوں کو اپنی طرف سے یقین ہو گیا کہ گاڑی میں سوار افراد مویشیوں کے سمگلر ہیں۔ اس لیے انہوں نے گاڑی کا پیچھا کیا اور فائرنگ کر دی جس سے مشرا کو گولی لگ گئی۔ آخرکار جب گاڑی رک گئی تو حملہ آوروں نے مشرا کے سینے میں ایک اور گولی ماری جس سے ان کی موت ہو واقع گئی۔
پولیس کے مطابق ملزموں نے پہلے تفتیش کاروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ انہوں نے اسلحہ نہر میں پھینک دیا ہے۔ تاہم، بعد میں اسلحہ کوشک کے گھر سے برآمد ہوا۔
گرفتار شدہ افراد اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں اور مزید تحقیقات جاری ہے۔
مشرا کے قتل کا واقعہ ہریانہ میں دل دہلا دینے والے ایک اور واقعے کے فوراً بعد پیش آیا جس میں 27 اگست کو گاؤ رکشک گروپ نے مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے کارکن صابر ملک کو مار مار کر جان سے مار دیا۔ حکام نے صابر ملک کی موت کے سلسلے میں سات افراد، جن میں دو نابالغ بھی شامل ہیں، کو گرفتار کر لیا۔ ریاست ان جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے میں مصروف ہے۔
انڈین مذہبی انتہا پسند ہندو گروپوں نے ملک بھر میں گائے ذبح کرنے پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی ریاستوں نے گائے ذبح کرنے کے خلاف سخت قوانین وضع کیے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین نے گاؤ رکشکوں کو جرات دی ہے جس کے نتیجے میں ان لوگوں پر حملے بڑھے ہیں جن پر گوشت یا کھال کے لیے گائے کو ذبح کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان حملوں کی زد میں زیادہ تر اقلیتی مسلمان برادری اور انڈیا میں ذات پات کے قدیم نظام کے تحت نچلی ذات کے لوگ آتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایک 55 سالہ خاتون کی موت کی اطلاع آئی جن کی موت مبینہ طور پر خوف کی وجہ سے ہوئی۔ پولیس نے اتر پردیش کے شہر بجنور میں خاتون کے گھر پر چھاپہ مارا تھا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا انہوں نے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔ آخر کار تلاش سے پتہ چلا کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت موجود نہیں تھا۔
اتر پردیش میں گائے ذبح کرنے کے خلاف سخت قوانین نافذ ہیں، جن کی خلاف ورزی پر 10 سال تک قید اور پانچ لاکھ انڈین روپے (ساڑھے چار ہزار پاؤنڈ) تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
ریاست کا گائے کو ذبح کرنے کے خلاف قانون نہ صرف گائے کی جان لینے پر پابندی عائد کرتا ہے بلکہ اس کے تحت بڑے گوشت کی فروخت اور نقل و حمل پر بھی پابندی ہے۔
ہمسایہ ریاست مدھیہ پردیش میں، حکام نے جون میں 11 افراد کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ اس سے قبل دعویٰ کیا گیا ان کے فریج میں گائے کا گوشت اور ان کے گھر کے عقبی حصے میں گائیں موجود پائی گئی۔ بعد ازاں پولیس نے کہا کہ یہ مکان سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے تاہم پولیس نے اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
گذشتہ سال ستمبر میں پولیس نے موہت یادو نامی شخص کو گرفتار کیا جنہیں مونو منیسر کی عرفیت سے جانا جاتا ہے۔ ان پر جولائی میں شمالی انڈین ریاست ہریانہ میں مذہب کے نام پر خونریز تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا۔
سخت گیر ہندو گروپ کی طرف سے گاؤ رکھشا کے لیے قائم کردہ یونٹ کے سربراہ کو حال ہی میں حراست میں لیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ’قابل اعتراض اور اشتعال انگیز‘ پوسٹیں کیں جن کی وجہ سے ریاست ہریانہ کے ضلع نوہ میں مذہبی بنیاد پر تشدد کے واقعات ہوئے جن میں کم از کم چھ افراد کی جان گئی اور کئی لوگ زخمی ہو گئے۔
انہیں پڑوسی ریاست راجستھان میں دو مسلمان مردوں کے قتل کا الزام بھی لگایا گیا۔
گذشتہ سال اپریل میں اتر پردیش میں دائیں بازو کے آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے چار ارکان کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے گائیں ذبح کر کے مسلمانوں کو جھوٹے الزام میں پھنسانے کی کوشش کی۔ پولیس کے علم میں آیا کہ گروپ مبینہ طور پر گائے ذبح کرنے پر چار مسلمانوں کے خلاف جعلی شکایت درج کروانے میں ملوث ہے جس کے بعد ان لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
مارچ 2023 میں ریاست بہار میں پولیس نے تین افراد کو نسیم قریشی نامی مسلمان کی موت کے سلسلے میں گرفتار کیا۔ نسیم قریشی پر گائے کا گوشت رکھنے کے شبے میں حملہ کیا گیا۔
یکم ستمبر کو مہاراشٹر کے ضلع ناشک میں ایک معمر مسلمان پر ان کے ہم سفروں نے چلتی ٹرین میں گائے کا گوشت رکھنے کے شبے میں حملہ کر دیا۔ پولیس نے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد تین افراد کو گرفتار کر لیا جن پر الزام ہے کہ وہ حملے میں ملوث تھے۔
© The Independent