نو روز کی بندش کے بعد ملک کے یوٹیلیٹی سٹورز منگل کو کھول دیے گئے جبکہ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی جانب سے سٹورز بند نہ کرنے اور صرف تشکیل نو کی یقین دہانی کے بعد پیر کو اسلام آباد میں جاری یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین کا دھرنا بھی ختم ہو گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے منگل کو یوٹیلیٹی سٹورز کھلنے کے بعد لاہور کے علاقے شادمان میں ایک یوٹیلیٹی سٹور کا دورہ کیا۔
سٹور کے مینیجر وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نو روز تک سٹور بند رہنے کے بعد منگل کو گاہکوں کی کمی دیکھنے میں آئی۔
وسیم نے یہ بھی بتایا کہ فی الحال سٹور پر آٹا اور چینی موجود نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سٹور پر بےنظیر انکم سپورٹ کے تحت رجسٹرڈ گاہکوں کے لیے مزید رعایت دی گئی جسے حکومت نے ختم کر دیا اور سٹورز بند کرنے کا بھی کہہ دیا، جس کے بعد ہم نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا۔‘
سٹور پر آنے والے گاہک ہمایوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یوٹیلیٹی سٹورز بند نہیں ہونے چاہییں، ان کا غریب عوام کو فائدہ ہے۔ البتہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار یہاں سے آپ صرف ایک چیز نہیں لے سکتے جیسے اگر میں نے آٹا لینا ہے تو سٹور والے کہیں گے کہ میں چینی، چاول اور دالیں بھی ساتھ لوں۔ آپ کے پاس کبھی پیسے نہیں بھی ہوتے یا کبھی صرف ایک ہی چیز چاہیے ہوتی ہے تو وہ آپ لے نہیں پاتے، اس لیے یہ رعایت ہونی چاہیے کہ اگر کوئی گاہک ایک چیز لینا چاہے تو وہ لے سکے۔‘
ایک اور گاہک شازیہ شفیق کو شکایت تھی کہ ’یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی دیگر دکانوں سے مہنگا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہم جیسے کچی روزی والوں کے لیے اشیا خورد و نوش سستی کرے تاکہ ہم بھی اچھے طریقے سے اپنا گزر کر سکیں۔‘
یوٹیلٹی سٹور بند کرنے کی بات کیوں چلی؟
گذشتہ ہفتے وفاقی سیکرٹری برائے صنعت و پیداوار سیف انجم نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار میں یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت ملک بھر میں یوٹیلیٹی سٹورز بند کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ان کے مطابق سٹورز کے ملازمین کو دیگر شعبوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
اس کے بعد یوٹیلیٹی سٹور ملازمین نے اسلام آباد میں احتجاج کیا اور دھرنا بھی دیا، جو ایک ہفتے سے زائد جاری رہا۔
اس سے قبل وفاقی وزیر برائے صنعت پیداوار رانا تنویر حسین نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان سٹورز کو اس لیے بند کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں شکایات موصول ہوئی تھیں کہ عوام تک سبسڈی کے فوائد پوری طرح نہیں پہنچ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ ملازمین اس میں ملوث ہیں اور کچھ افسران کا نام بھی اس میں ہے جو سبسڈی لے رہے تھے، اس لیے اصلاحات لانا ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت چاہتی ہے کہ سبسڈی مستحقین تک پہنچے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین کے لیے ایک پیکیج پر غور کر رہی ہے اور وہ ملازمین کو دوسرے محکموں میں منتقل کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت غیر ضروری کاروباروں سے باہر نکلنا چاہتی ہے۔‘
موجودہ حکومت نے کفایت شعاری کی مہم کا آغاز کر رکھا ہے، جس کے تحت متعدد محکمے بند کیے جا رہے ہیں یا انہیں دوسرے محکموں میں ضم کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہی ایک محکمہ پی ڈبلیو ڈی بھی ہے، جس کے ملازمین اس وقت اسلام آباد میں اس ادارے کی بندش کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
پیر کو یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمین کے ایک وفد نے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین سے ملاقات کی اور رانا تنویر نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو بند نہیں کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا کہ ’یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو بند کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں البتہ ان سٹورز کی ری سٹرکچرنگ ضرور کی جائے گی۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی تنظیم نو کے مختلف آپشنز پر کام ہو رہا ہے۔‘
دوسری جانب سٹورز کے ایک ملازم مزمل رفیق نے 27 اگست کو لاہور ہائی کورٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش کے خلاف درخواست دائر کی، جس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ یوٹیلیٹی سٹور سالانہ دو ارب کا منافع کما رہا ہے اور خزانے پر بوجھ نہیں ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا اور اس کیس کی سماعت چار ستمبر تک ملتوی کی۔
بےضابطگیاں اور اضافی ملازمین
یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن پر بےضابطگیوں کے کئی الزامات لگتے رہے ہیں۔ 20-2019 میں سٹورز کے آڈٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ یوٹیلیٹی سٹورز میں 42 ریجنز میں 9,756 ملازمین کام کر رہے ہیں جبکہ منظور شدہ یا مجاز عہدوں کی تعداد 7,662 ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مقررہ تعداد سے 2094 اضافی ملازمین کام کر رہے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ اضافی ملازمین پہلے سے ہی مالی مشکلات کے شکار ادارے پر بوجھ ہیں۔
بزنس ماڈل
یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن وزارتِ صنعت و پیداوار کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کا بزنس ماڈل یہ ہے کہ چند مخصوص اشیا پر اسے حکومت سے سبسڈی ملتی ہے، جس کی مدد سے یہ قیمتیں کم رکھتا ہے۔
ان اشیا میں خوردنی تیل، آٹا، چینی، چاول اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ یہ ادارہ بڑی مقدار میں اشیا خریدتا ہے جس سے قیمتیں کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
53 سال پرانا ادارہ
یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن 1971 میں قائم کی گئی تھی، جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقے کو اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں ریلیف دینا تھا۔ شروع میں اس کے صرف 20 سٹور تھے جو سٹاف ویلفیئر آرگنائزیشن نامی تنظیم سے حاصل کیے گئے تھے، مگر پچھلے 53 برس میں ان سٹوروں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور یہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئے۔
اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ یہاں عوام خاص طور پر معاشرے کے غریب طبقے کو صاف ستھرا، درجہ بندی کے مطابق اور حفظان صحت کے لحاظ سے موزوں، ملاوٹ کے بغیر اشیائے خورد و نوش اور غیر غذائی اشیا فراہم کی جائیں اور عوام کو باہمی اعتماد کا خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے، جہاں وہ بازار سے نسبتاً سستے نرخوں پر خریداری کر سکیں۔
ان سٹوروں پر کھانے پینے اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیا سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں، البتہ صارفین کو شکایت رہی ہے کہ ان اشیا کا معیار مارکیٹ کے مقابلے میں ہلکا ہوتا ہے۔
یوٹیلیٹی سٹورز کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چار ہزار سے زیادہ یوٹیلیٹی سٹورز قائم ہیں، جن میں تقریباً 17 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔