اسسٹنٹ کمشنرز کو ڈبل کیبن گاڑیاں دینا قانونی ہے: سندھ حکومت

حکومت سندھ کی ترجمان نے بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے آخری بار 2010 اور 2012 میں سوزکی کلٹس گاڑیاں خریدی گئی تھیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان نے جمعرات کو سرکاری افسروں کے لیے دو ارب روپے مالیت کی گاڑیوں کی خریداری کے فیصلے پر تنقید کو مسترد کر دیا۔

مقامی میڈیا میں سندھ حکومت کی جانب سے دو ارب روپے کی لاگت سے صوبے کے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے فور بائی فور ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے حوالے سے خبریں شائع ہوئی تھیں اور انہیں ’شاہی‘ خرچ قرار دیا جا رہا تھا۔

تاہم وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا کہتے ہیں کہ حکومتی فیصلے کو 'شاہانہ‘ یا فضول خرچی قرار دینا گمراہ کن ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ گاڑیوں کی خریداری رولز آف بزنس کے تحت قانونی طور پر کی جا رہی ہے۔

ترجمان کے مطابق: ’فیلڈ افسران کو فعال اور قابل اعتماد گاڑیاں فراہم کرنا کوئی عیاشی نہیں، بلکہ صوبائی انتظامیہ کی سالمیت اور موثر کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔‘

عبدالرشید چنا نے بتایا کہ ’سندھ رولز آف بزنس‘ کے مطابق فیلڈ افسر کو لگژری گاڑی الاٹ کی جا سکتی ہے اور یہ الاٹمنٹ قانون کے عین مطابق ہے۔

ان کے مطابق: ’دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں تمام سرکاری محکموں کو کس طرح چلانا ہے، افسران کو ان کے گریڈ کے مطابق کون سی مراعات بشمول گاڑی، گاڑی کا ایندھن، آفس، مددگار عملہ، ٹیلی فون وغیرہ کی تمام سہولیات کے لیے سرکاری طور پر رولز آف بزنس بنے ہوئے ہیں۔

’ان رولز آف بزنس میں وزیر اعلیٰ، وزیر، سیکریٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر سمیت سرکار کے لیے کام کرنے والے تمام افسران کو مراعات کا طریقہ کار واضح ہے۔‘

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’رولز آف بزنس کے تحت 17 گریڈ کے افسر کو 800 سے 1000 سی سی کار دی جاتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی گریڈ 17 کا ہے، مگر اسسٹنٹ کمشنر کا اصل کام فیلڈ کا ہے، اس لیے رولز آف بزنس کے مطابق فیلڈ افسر کو بڑی گاڑی الاٹ کی جاتی ہے۔‘

عبدالرشید چنا کے مطابق برطانوی دور حکومت میں اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ کلیکٹر کا تھا، جس کا کام زرعی ٹیکس کی ریکوری کرنا تھا۔

’مگر بعد میں دیگر انتظامی امور دے کر اس عہدے کا نام اسسٹنٹ کمشنر رکھ دیا گیا۔

’اس عہدے کا آج بھی بنیادی کام ٹیکس ریکوری کرنا ہے، جس کے لیے انہیں فیلڈ میں جانا پڑتا ہے۔ فیلڈ افسر کے لیے رولز آف بزنس میں بڑی گاڑی الاٹ کرنے کے متعلق واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔‘

بقول عبدالرشید چنا: ’الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر سندھ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری کے لیے دو ارب روپے مختص کرنے کے فیصلے پر اٹھائے گئے سوالات میں نہ صرف سیاق و سباق کا فقدان ہے بلکہ اس فیصلے کے پیچھے ضرورت اور دلیل کو بھی غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔‘

سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے اسسٹنٹ کمشنرز کو صوبائی انتظامیہ میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے کہا وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کو نافذ کرنے، امن و امان برقرار رکھنے، قیمتوں پر قابو پانے، پولیو کے خاتمے کی مہم کی نگرانی کرنے، سیلاب کے انتظام، سکولوں اور ہسپتالوں کے معائنے، لینڈ ایڈمنسٹریشن، الیکشن ڈیوٹی اور دیگر ضروری کاموں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’مذکورہ افسران اکثر 24 گھنٹے اور دور دراز علاقوں میں سرکاری مشینری کے کام کو یقینی بنانے کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی آخری خریداری 2010 اور 2012 میں کی گئی تھی جب سوزوکی کلٹس کاریں خریدی گئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سوزوکی کلٹس کی اوسط عمر تقریباً سات سے آٹھ سال ہے۔

’فی الحال ان میں سے زیادہ تر گاڑیاں اپنی عمر پوری کر چکی ہیں اور بہت سی گاڑیاں تقریباً آٹھ لاکھ کلومیٹر چل چکی ہیں۔‘

’کئی گاڑیوں کے اوڈو میٹر زیادہ استعمال کی وجہ سے ناکارہ ہو گئے ہیں۔ کچھ افسران کے پاس 2005 سے پرانی ماڈل کی گاڑیاں بھی ہیں۔

’اسسٹنٹ کمشنر سرکاری فرائض کے لیے اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو ناقابل عمل اور غیر منصفانہ ہے۔

’جن افسران کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں نہیں وہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے نجی گاڑیاں کرائے پر لینے پر مجبور ہیں۔‘

سعدیہ جاوید کے مطابق سندھ حکومت نے اس وقت پرانی گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ ہونے والے عوامی فنڈز کو کم کر کے بچت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت کا نئی گاڑیوں کے لیے فنڈز مختص کرنے کا فیصلہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک عملی اقدام ہے کہ فیلڈ افسران اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے ادا کر سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان